باوضو نیند شہادت کی موت
سوال: ایک روایت سنی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص باوضو سوتا ہے، اگر اسی حال میں اس کی روح قبض کرلی گئی تو اس کیلئے شہادت کی موت لکھی جاتی ہے…کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت مختلف کتب میں مختلف سندوں کے ساتھ منقول ہے.
١. پہلی سند:
اس روایت کو طبرانی نے معجم اوسط میں نقل کیا ہے، اسی طرح ابویعلی نے بھی اسکو نقل کیا ہے.
هذا الحديث رواه الطبراني في “المعجم الأوسط” (5991) وأبويعلى في “مسنده” (3624) من طريق عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيّبِ عن أَنَس بْن مَالِكٍ عن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال له: يَابُنَيَّ! إِنِ اسْتَطَعْتَ أَلَّا تَبِيتَ إِلَّا عَلَى وضُوءٍ فَافْعَلْ، فَإِنَّهُ مَنْ أَتَاهُ الْمَوْتُ، وَهُوَ عَلَى وضُوءٍ، أُعْطِيَ الشَّهَادَةَ.
اس سند کی اسنادی حیثیت:
اس سند میں ایک راوی ہے علی بن زید اس پر محدثین کا کلام کافی سخت ہے:
١. ابن قانع کہتے ہیں کہ آخری عمر میں اس کو دماغی خلل پیش آیا جس کی وجہ سے محدثین نے اس کی روایات چھوڑ دیں.
وقال ابن قانع: خلط في آخر عمره وترك حديثه.
٢. ابن حبان کہتے ہیں کہ کثرت اوہام کی وجہ سے اس کی روایات چھوڑ دی گئیں.
وقال ابن حبان: يهم ويخطىء فكثر ذلك منه فاستحق الترك.
٣. امام بخاری کہتے ہیں کہ اس کی روایات قابل حجت نہیں.
وقال البخاري وغيره: لا يحتج به.
٤. ابن خزیمہ کہتے ہیں کہ اس کی یادداشت کی خرابی کی وجہ سے میں اس کی روایات کو قابل حجت نہیں سمجھتا.
وقال ابن خزيمة: لا أحتج به لسوء حفظه.
٥. حماد بن زید کہتے ہیں کہ یہ شخص روایات میں الٹ پلٹ کردیا کرتا تھا.
وقال حماد بن زيد: أنبأنا علي بن زيد، وكان يقلب الأحاديث.
٦. امام ذہبی سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں کہ میں نے اس کی روایات جمع کیں تو وہ عجیب اور منکر روایات تھیں، لیکن اس کا علم وسیع تھا.
قلت قد استوفيت أخباره في الميزان وغيره وله عجائب ومناكير، لكنه واسع العلم.
٢. دوسری سند:
بیهقی نے یہی روایت شعب الایمان میں نقل کی ہے، اس کی سند میں ایک راوی ابو ہاشم کثیر بن عبداللہ ہے جو کہ محدثین کے نزدیک کافی کمزور ہے.
ورواه البيهقي في “الشعب” (2529)، وأبوالقاسم الشحامي في “السباعيات” (147) من طريق كثير بن عبدالله أبي هاشم عن أنس به.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کے راوی کثیر بن عبداللہ پر محدثین نے متروک ہونے کا حکم لگایا ہے (گویا کہ ان پر جھوٹ کی تہمت ہے) اور بعض محدثین نے انکو منکر قرار دیا ہے.
١. امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے.
قال البخاري: منكر الحديث.
٢. امام نسائی کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے.
وقال النسائي: متروك الحديث.
٣. ابوحاتم کہتے ہیں کہ منکر الحدیث متروک کی طرح ہے.
وقال أبوحاتم: منكر الحديث، شبه المتروك. (ميزان الاعتدال:3/406).
٣. تیسری سند:
یہ روایت الترغیب والترہیب میں منقول ہے اور اس کی سند میں بشر بن ابراہیم اور عباد بن کثیر الثقفیدونوں انتہائی کمزور راوی ہیں.
ورواه قوام السنة (254) في “الترغيب والترهيب” من طريق بشر بن إبراهيم، نا عباد بن كثير، عن عبدالرحمن بن حرملة، عن سعيد بن المسيب، عن أنس بن مالك.
عباد بن كثير:
١. امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے اور ثوری اس کو جھوٹا کہتے تھے.
قال البخاري: تركوه.. وكان الثوري يكذبه.
٢. امام أحمد کہتے ہیں کہ یہ جھوٹی روایات نقل کرتا تھا.
وقال أحمد: روى أحاديث كذب. (تهذيب التهذيب:5/100)
بشر بن إبراهيم:
١. عقیلی کہتے ہیں کہ یہ اوزاعی سے من گھڑت روایات نقل کرتا تھا.
قال العقيلي: يروي عن الأوزاعي موضوعات.
٢. ابن عدی کہتے ہیں کہ یہ من گھڑت روایات بناتا تھا.
وقال ابن عدي: هو عندي ممن يضع الحديث.
٣. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ ثقہ لوگوں کی طرف من گھڑت روایات منسوب کرتا تھا.
وقال ابن حبان: كان يضع الحديث على الثقات. (ميزان الاعتدال:1/311).
٤. چوتھی سند:
مطالب عالیہ میں یہ روایت منقول ہے اور اس کی سند میں ایک راوی علاء بن زید الثقفی ہیں، جن کے بارے میں محدثین کا کلام کافی سخت ہے.
ورواه أحمد بن منيع (كما في “المطالب العالية” 2/273): حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، ثنا الْعَلَاءُ (أَبُومُحَمَّدٍ الثَّقَفِيُّ) حَدَّثَنَا أَنَسٌ رَضِيَ الله عَنْهُ به.
العلاء بن زيد الثقفي:
اس راوی کے بارے میں محدثین کے اقوال:
١. ابن مدینی کہتے ہیں کہ یہ من گھڑت روایات بناتا تھا.
قال ابن المديني: كان يضع الحديث.
٢. ابوحاتم کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے.
وقال أبوحاتم والدارقطني: متروك الحديث.
٣. امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے.
وقال البخاري وغيره: منكر الحديث.
٤. ابن حبان کہتے ہیں کہ حضرت انس سے اس نے من گھڑت روایات کا پورا نسخہ نقل کیا ہے.
وقال ابن حبان: روى عن أنس نسخة موضوعة. (ميزان الاعتدال:3/99)
اس مضمون کی صحیح روایات:
١. صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ایک روایت منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب سونے کا ارادہ کرو تو وضو کرکے دائیں کروٹ پر لیٹ کر یہ دعا پڑھ لو، اگر اسی حال پر تمہاری موت آگئی تو تم فطرت اسلام پر مرنے والے ہوگے.
روی البخاري (247) ومسلم (2710) عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِذَا أَتَيْتَ مَضْجَعَكَ فَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَى شِقِّكَ الْأَيْمَنِ، ثُمَّ قُلْ: [اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ]؛ فَإِنْ مُتَّ مِنْ لَيْلَتِكَ فَأَنْتَ عَلَى الْفِطْرَةِ، وَاجْعَلْهُنَّ آخِرَ مَا تَتَكَلَّمُ بِهِ”.
٢. آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص باوضو ہو کر رات گذارے، پھر رات میں اگر اس کی آنکھ کھل جائے اور وہ اللہ تعالی سے جو بھی خیر مانگے تو اللہ تعالی اسے وہ چیز ضرور عطا فرماتے ہیں.
وروى أبوداود (5042) عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَن النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَبِيتُ عَلَى ذِكْرٍ طَاهِرًا فَيَتَعَارُّ مِنْ اللَّيْلِ فَيَسْأَلُ اللهَ خَيْرًا مِن الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ”.
٣. ایک اور روایت میں آپ علیہ السلام نے ہمیشہ باوضو رہنے کو ایمان کی علامت بتایا ہے.
وقد روى ابن ماجة (277) عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “اسْتَقِيمُوا وَلَنْ تُحْصُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِكُمْ الصَّلَاةَ، وَلَا يُحَافِظُ عَلَى الْوُضُوءِ إِلَّا مُؤْمِنٌ”.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور روایت سند کے لحاظ سے انتہائی کمزور ہے، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ