معراج کا خاص راز
سوال: آج کل ایک ویڈیو گردش کررہی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا در رحمت جوش میں تھا، فرمایا کہ عائشہ جو مانگنا ہے مانگ لو، میں نے عرض کیا یارسول اللہ! اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مشورہ کرلوں، اجازت مل جانے پر اپنے والد گرامی کی خدمت میں حاضر ہوکر مشورہ طلب کیا کہ اس سنہری موقعے سے فائدہ اٹھا کر اہم شیئ مانگنا چاہتی ہوں تو کیا مانگوں؟ (میں چاہتی ہوں کوئی بڑی چیز مانگوں)، والد محترم نے فرمایا کہ بیٹا! حضور سے جاکر کہنا کہ معراج کی خلوت خاص میں اللہ نے آپ سے جو راز کی باتیں کی تھیں ان میں سے کوئی ایک بات بتادیں، ” مانگا بھی تو علم مانگا” اور عائشہ! مجھ سے وعدہ کرو کہ حضور جو بتائیں مجھے بھی ضرور بتانا. پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر جب سوال بتایا تو حضور نے تبسم فرمایا، غالبا اس بات پر مسکرائے ہونگے کہ میرے یار غار کا انتخاب کیسا ہے…یا اس بات پر کہ راز کی بات بتادوں تو راز پھر راز نہ رہا…لیکن وعدہ کیا تھا اسلئے بتادیا، فرمایا کہ عائشہ سنو…جب میں قرب خاص میں پہنچا تو میرے مالک نے مجھ سے راز کی جو باتیں کیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ محبوب! تیری امت میں سے جب کوئی شخص کسی شخص کا ٹوٹا ہوا دل جوڑ دے تو میرے اوپر لازم ہے کہ اسکو بغیر حساب کے جنت عطا کروں، ام المؤمنین بہت خوش تھیں اور آکر اپنے والد گرامی کو جب یہ بات بتائی تو وہ یہ سن کر رونے لگے، عرض کیا کہ یہ بات رونے والی تو نہیں ہے، کبھی ہم کسی دکھی دل کے کام آجاتے ہیں تو یہ تو ہمیں بخشش کا بہانہ مل گیا…فرمایا کہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھو کہ جب ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑنے پر یہ وعدہ ہے تو اگر کوئی کسی کا دل توڑ دے تو سیدھا جہنم میں جائےگا، میں اس بات پر رورہا ہوں کہ ہم سے کسی کا دل نہ ٹوٹ جائے..اس قصے کی صحت کے بارے میں تحقیق مطلوب ہے
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ کوئی بھی بات خواہ وہ کتنی بھی اچھی اور بھلی معلوم ہو جب اس کی نسبت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی جائے تو بیان کرنے والا چاہے کوئی بھی ہو اس سے اس نسبت کی دلیل ضرور طلب کی جائیگی.
علامہ قاسم بن قطلوبغا فرماتے ہیں:
قوة الحديث إنما هي بالنظر إلى رجاله لا بالنظر إلى كونه فى كتاب كذا
کہ کسی حدیث کی قوت اور قابل قبول ہونے کیلئے یہ دیکھا جائیگا کہ اس کی سند کیا ہے یہ نہیں دیکھا جائیگا کہ وہ کس کتاب میں ہے
لہذا مذکورہ واقعہ کس نے بیان کیا اور اس میں کتنی اہم بات ذکر ہے اس قطع نظر سب سے پہلے دیکھا جائیگا کہ اس واقعے کا کوئ ثبوت ہے یا نہیں
روایت کی تحقیق:
اس واقعے کو تمام میسر ذرائع میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئ لیکن یہ واقعہ کسی بھی مستند یا غیر مستند کتاب یا مصدر میں نہیں مل سکا. البتہ اس مضمون کے قریب کا ایک واقعہ صحیح سند کے ساتھ کتب حدیث میں ضرور ملتا ہے.
صحیح اور مستند واقعہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک موقعہ پر حضور علیہ السلام کو بشاشت کی حالت میں دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ میرے لئے دعا کیجئے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا اے اللہ عائشہ کے اگلے پچھلے ظاہری و باطنی تمام گناہ معاف فرما حضرت عائشہ اتنی خوش ہوئ کہ ہنستے ہنستے آپ علیہ السلام کی گود میں گرپڑی آپ علیہ السلام نے فرمایا اے عائشہ کیا اس دعا سے تمھیں بہت خوشی ہوئ میں تو ہر نماز میں اپنی امت کیلئے یہ دعا کرتا ہوں اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ کے والدین نے جب یہ دعا سنی تو تعجب کا اظہار کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ دعا تو ہر نماز میں امت کیلئے کرتا ہوں.
لَمَّا رأَيْتُ مِن النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم طِيبَ نفسٍ قُلْتُ يا رسولَ اللهِ ادعُ اللهَ لي فقال: (اللَّهمَّ اغفِرْ لِعائشةَ ما تقدَّم مِن ذنبِها وما تأخَّر ما أسرَّتْ وما أعلَنَتْ ) فضحِكَتْ عائشةُ حتَّى سقَط رأسُها في حِجْرِها مِن الضَّحِكِ قال لها رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( أيسُرُّكِ دعائي ) ؟ فقالت : وما لي لا يسُرُّني دعاؤُكَ ؟ فقال صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( واللهِ إنَّها لَدعائي لِأُمَّتي في كلِّ صلاةٍ( .
الراوي: عائشة
المحدث: ابن حبان
المصدر: صحيح ابن حبان
الصفحة أو الرقم: 7111
خلاصة حكم المحدث: أخرجه في صحيحه
اللهمَّ اغفرْ لعائشةَ بنتِ أبي بكرٍ الصِّدِّيقِ مغفرَةً واجبةً ظاهرةً باطنةً . فعجبَ أبواها فقال : أتعجبانِ ، هذه دعوتِي لِمَنْ شهدَ أنْ لا إلهَ إلَّا اللهُ ، وأَنِّي رسولُ اللهِ .
الراوي: عائشة أم المؤمنين
المحدث: الذهبي
المصدر: سير أعلام النبلاء
الصفحة أو الرقم: 2/145
خلاصة حكم المحدث: غريب جداً
لما رأيتُ من النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم طِيبَ نفسٍ قلت يا رسولَ اللهِ ادعُ اللهَ لي قال اللهمَّ اغفرْ لعائشةَ ما تقدَّم من ذنبِها وما تأخرَ وما أسرَّت وما أعلنت فضحكت عائشةُ حتى سقط رأسُها في حِجرِها من الضحِكِ فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أيسرُّكِ دعائِي فقالت وما لي لا يسرُّني دعاؤُكَ فقال واللهِ إنها لَدعوتِي لأمتي في كلِّ صلاةٍ .
الراوي: عائشة أم المؤمنين
المحدث: الهيثمي
المصدر: مجمع الزوائد
الصفحة أو الرقم: 9/246
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح خلاصہ کلام
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور واقعے کی سند اور ماخذ کا علم باوجود کوشش کے ہمیں نہ ہو سکا لہذا اس واقعے کو بیان کرنا یا پھیلانا کسی صورت درست نہ ہوگا.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ