دو نمازوں کو جمع کرنا
سوال: ایک شخص جن کا نام محمّد علی مرزا صاحب ہے وہ یہ بیان کر رہے ہیں کہ شیعہ اور سنی کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے، ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھتے ہیں، اور مغرب اور عشاء کو ساتھ پڑھتے ہیں، اور حدیث میں آیا ہے کہ سفر میں ایسا کر سکتے ہیں، لیکن اسکا کہنا ہے کہ مسلم شریف میں انٹرنیشنل نمبر کے مطابق حدیث نمبر ١٦٢٩ اور ١٦٣٣ میں مذکور ہے کہ سفر کے علاوہ عام حالت میں بھی ان نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھ سکتے ہیں۔ برائے مہربانی اس بات کی تحقیق فرما دیجئے کہ یہ کس حد تک درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ (وقت کے لحاظ سے) نماز کی ادائیگی کے مختلف طریقے ہیں:
١. نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا:
قرآن مجید نے اس کے متعلق فرمایا: {إِنَّ الصَّلاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَاباً مَوْقُوتاً}
کہ نماز مسلمانوں پر مخصوص وقت میں فرض کی گئی ہے.
شیعہ (روافض) کے علاوہ تمام امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عام حالات میں تمام نمازیں اپنے وقت پر ادا کرنا فرض ہے اور بلاعذر کسی نماز کو اپنے مقررہ وقت پر نہ پڑھنا گناہ کبیرہ ہے.
٢. حج کے موقعے پر دو نمازوں کو بیک وقت جمع کرنا:
اگر دو نمازوں کو عرفات میں یا مزدلفہ میں جمع کیا جائے تو یہ بھی باتفاق امت جائز اور سنت عمل ہے.
٣. سفر میں دو نمازوں کو جمع کرنا:
اس بات میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے کہ دو نمازوں کو دوران سفر اس طرح جمع کیا جاسکتا ہے کہ ظہر اور عصر کو جمع کرکے یا تو ظہر کے وقت میں پڑھ لیا جائے یا عصر کے وقت میں ایک ساتھ پڑھ لیں، اور مغرب اور عشاء کو کسی ایک وقت میں جمع کرلیں.
جمھور فقہائے کرام اس جمع بین الصلواتین فی السفر کے قائل ہیں کہ چلتے ہوئے سفر میں ایسا کرنا درست ہے، جبکہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمه اللہ اس جمع کو “جمع صوری” قرار دے کر ایک ساتھ پڑھنے کے قائل ہیں.
جمع صوری:
جمع صوری کی شکل یہ ہے کہ ظہر کی نماز کو مؤخر کرکے بلکل آخر وقت میں پڑھا جائے اور عصر کو بلکل ابتدائی وقت میں پڑھا جائے، تو بظاہر یہ جمع بین الصلواتین معلوم ہوگی لیکن درحقیقت اس طرح کرنے سے ہر نماز اپنے وقت پر ہی ادا ہوگی.
(نوٹ: ان مسائل کے دلائل تمام فقہی کتابوں میں موجود ہیں اور یہ ہمارا موضوع نہیں).
٤. بارش کی وجہ سے دو نمازوں کو شہر میں جمع کرنا:
اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے.
٥. شہر میں ہوتے ہوئے دو نمازوں کو بلاعذر ایک وقت میں جمع کرنا:
(یہ وہ موضوع ہے جو سوال میں پوچھا گیا ہے)
اس قول کے قائلین کے نزدیک یہ شرط ہے کہ اس عمل کو عادت نہ بنائی جائے.
یہ ابن سیرین، ربیعہ، ابن المنذر وغیرہ کا قول ہے اور شیعوں کا عمومی عمل ہے.
لیکن جمہور امت کے نزدیک بلاعذر جمع کرنا جائز نہیں ہے.
الجَمْع بين الصلوات مطلقًا من غير عذر، فقد ذَهَبَ بعضُ أهل العلم إلى جوازه، بشرط أن لا يتخذ ذلك خُلُقًا وعادة.
• قال الحافظ ابن حجر في “الفتح”: وممن قال به ابنُ سيرين ورَبِيعَة وابن المنذر والقَفَّال الكبير، وحكاه الخطابي عن جماعة من أصحاب الحديث. وهو مذهب الشيعة الإمامية. وذهب الجمہور (ومنهم الأئمة الأربعة) وابن حزم وأكثرُ أهل العلم إلى أن الجَمْع لغير عذر لا يجوز.
صحیح مسلم کی روایت:
سب سے پہلے اس روایت پر نظر ڈالتے ہیں جس میں حضور علیہ السلام کا نمازوں کو جمع کرنا بیان کیا گیا ہے..
حديث ابن عباس قال: “جَمَعَ رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الظهر والعصر، والمغرب والعشاء بالمدينة فى غير خوف ولا مطر”. (رواه مسلم).
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے مدینہ میں ظہر اور عصر کو، نیز مغرب اور عشاء کو جمع فرمایا جبکہ خوف اور بارش نہیں تھی.
اس روایت کے متعلق محدثین اور فقہائے کرام کے اقوال:
یہ روایت صحیح مسلم کی ہے، لہذا دیکھنا یہ ہے کہ جماہیر امت نے اس روایت کے کیا مطلب اور معنی بیان فرمائے ہیں:
١. امام ترمذی رحمه اللہ نے اس روایت پر عمل نہ کرنے پر اجماع نقل کیا ہے کہ تمام امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس روایت (کے ظاہر) پر عمل نہیں کیا جائےگا، اور حضور علیہ السلام کے عمل کو مرض پر محمول کیا کہ آپ علیہ السلام مریض تھے اس لئے جمع فرمایا.
أن جماهير العلماء حمل الحديث على المرض لا غير، وروى ابن الترمذى الاجماع على عدم العمل بهذا الحديث.
جن علماء نے اس روایت کے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے بغیر عذر کے جمع بین الصلواتین کرنے کو جائز کہا ہے تو علامہ ابن عبدالبر نے ان لوگوں کی جماعت کی رائے کو ‘شاذ’ قرار دیا.
(شاذ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی قابل اعتبار شخص اپنے سے زیادہ قابل لوگوں کی مخالفت کرے… شاذ قول معتبر نہیں ہوتا)
أن من العلماء من خالف وعمل بظاهر الحديث؛ منهم: ابن سيرين وابن المنذر وأشهب صاحب مالك، ووصف ابن عبدالبر هذا الرأى بالشذوذ واليك النقل:
‘جمع من غير خوف ولا مطر’. [شرح النووي على مسلم: 5/218]
٢. امام ترمذی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میری کتاب میں صرف دو روایتیں ایسی ہیں کہ جن پر پوری امت میں سے کسی کا عمل نہیں ہے، ان میں سے ایک یہ روایت ہے.
وَقَدْ قَالَ التِّرْمِذِيُّ فِي آخِرِ كِتَابِهِ: لَيْسَ فِي كِتَابِي حَدِيثٌ أَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى تَرْكِ الْعَمَلِ بِهِ إِلَّا حَدِيثَ بن عَبَّاسٍ فِي الْجَمْعِ بِالْمَدِينَةِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ وَحَدِيثَ قَتْلِ شَارِبِ الْخَمْرِ فِي الْمَرَّةِ الرَّابِعَة، وَهَذَا الَّذِي قَالَهُ التِّرْمِذِيُّ فِي حديث شارب الخمر. هو كما قاله فَهُوَ حَدِيثٌ مَنْسُوخٌ، دَلَّ الْإِجْمَاعُ عَلَى نَسْخِهِ.
[الاستذكار: 2/211-212].
٣. مالکیہ کے نزدیک بارش کے عذر کے علاوہ حضر میں دو نمازوں کو جمع کرنا درست نہیں.
بعض لوگوں نے اس قول سے اختلاف کیا لیکن ان کا اختلاف معتبر نہیں.
وَأَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّهُ لَا يَجُوزُ الْجَمْعُ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي الْحَضَرِ لِغَيْرِ عُذْرِ الْمَطَرِ إِلَّا طَائِفَةً شَذَّتْ. سَنُورِدُ مَا إِلَيْهِ ذَهَبَتْ فِي هَذَا الْبَابِ إِنْ شَاءَاللهُ……..
وَقَالَتْ طَائِفَةٌ شَذَّتْ عَنِ الْجمہور : الْجَمْعُ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي الْحَضَر مُبَاحٌ (وَإِنْ لَمْ يَكُنْ مَطَرٌ) إِذَا كَانَ عُذْرٌ وَضِيقٌ عَلَى صَاحِبِهِ وَيَشُقُّ عَلَيْهِ.
وَمِمَّنْ قَالَ ذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ سیرین واشهب صاحب مالك. [بداية المجتهد ونهاية المقتصد: 1/182]
٤. احناف کے نزدیک اس روایت کی تاویل جمع صوری ہے کہ ظہر کو مؤخر کیا اور عصر کو مقدم کیا.
اسی طرح مغرب کو مؤخر کرکے عشاء کو مقدم کیا گیا.
حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ خَرَّجَهُ مَالِكٌ، وَمُسْلِمٌ قَالَ: «صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا سَفَرٍ» فَذَهَبَ الْقَائِلُونَ بِجَوَازِ الْجَمْعِ فِي تَأْوِيلِ هَذِهِ الْأَحَادِيثِ إِلَى أَنَّهُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ الْعَصْرِ الْمُخْتَصِّ بِهَا وَجَمَعَ بَيْنَهُمَا. وَذَهَبَ الْكُوفِيُّونَ إِلَى أَنَّهُ إِنَّمَا أَوْقَعَ صَلَاةَ الظُّهْرِ فِي آخِرِ وَقْتِهَا وَصَلَاةَ الْعَصْرِ فِي أَوَّلِ وَقْتِهَا عَلَى مَا جَاءَ فِي حَدِيثِ إِمَامَةِ جِبْرِيلَ قَالُوا: وَعَلَى هَذَا يَصِحُّ حَمْلُ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ لِأَنَّهُ قَدِ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ هَذَا فِي الْحَضَرِ لِغَيْرِ عُذْرٍ: (أَعْنِي: أَنْ تُصَلَّى الصَّلَاتَانِ مَعًا فِي وَقْتِ إِحْدَاهُمَا)
[حاشية الروض المربع: 2/399]
٥. بعض علماء نے اس کو حالت مرض پر محمول کیا کہ آپ علیہ السلام بیمار تھے.
لأن النبي صلى الله عليه وسلم جمع من غير خوف ولا مطر.
– وفي رواية: من غير خوف ولا سفر.
رواهما مسلم من حديث ابن عباس، ولا عذر بعد ذلك إلا المرض.
اسی بات کو علامہ ابن حجر اور علامہ نووی نے بھی قبول کیا ہے.
قال ابن حجر في “الفتح”: وَجَوَّزَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ أَنْ يَكُونَ الْجَمْعُ الْمَذْكُورُ لِلْمَرَضِ، وَقَوَّاهُ النَّوَوِيُّ.
٦. بعض علماء نے اس کی یہ تاویل فرمائی کہ گہرے بادلوں کی وجہ سے جمع بین الصلواتین کیا گیا.
قَالَ النَّوَوِيُّ: وَمِنْهُمْ مَنْ تَأَوَّلَهُ عَلَى أَنَّهُ كَانَ فِي غَيْمٍ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ اِنْكَشَفَ الْغَيْمُ مَثَلًا فَبَانَ أَنَّ وَقْتَ الْعَصْرِ دَخَلَ فَصَلَّاهَا.
٧. جمع صوری کے کچھ اور قائلین جن میں ابن عباس کے شاگرد ابوالشعثاء بھی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی یہ جمع صوری کی شکل لگتی ہے، اور روایت کے مطلب کو راوی سے بہتر اور کوئی نہیں سمجھ سکتا.
وَمِنْهُمْ مَنْ تَأَوَّلَهُ عَلَى أَنَّ الْجَمْعَ الْمَذْكُورَ صُورِيٌّ، بِأَنْ يَكُونَ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى آخِرِ وَقْتِهَا وَعَجَّلَ الْعَصْرَ فِي أَوَّلِ وَقْتِهَا. وَهَذَا الَّذِي ضَعَّفَهُ النووي، اِسْتَحْسَنَهُ الْقُرْطُبِيُّ وَرَجَّحَهُ قَبْلَهُ إِمَامُ الْحَرَمَيْنِ وَجَزَمَ بِهِ مِنْ الْقُدَمَاءِ اِبْنُ الْمَاجِشُونِ وَالطَّحَاوِيُّ وَقَوَّاهُ اِبْنُ سَيِّدِ النَّاسِ بِأَنَّ أَبَاالشَّعْثَاءِ وَهُوَ رَاوِي الْحَدِيثِ عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ قَدْ قَالَ بِهِ، وَذَلِكَ فِيمَا رَوَاهُ الشَّيْخَانِ مِنْ طَرِيقِ اِبْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ وَزَادَ: قُلْت يَاأَبَاالشَّعْثَاءِ! أَظُنُّهُ أَخَّرَ الظُّهْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ وَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ وَعَجَّلَ الْعِشَاءَ. قَالَ: وَأَنَا أَظُنُّهُ. قَالَ اِبْنُ سَيِّدِ النَّاسِ: وَرَاوِي الْحَدِيثِ أَدْرَى بِالْمُرَادِ مِنْ غَيْرِه.
٨. اس بات کو خود ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سننے والے بھی چونک گئے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ تو ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ امت کی سہولت کیلئے یہ عمل کیا گیا، گویا یہ عمل صحابہ کے دور میں بھی اجنبی اور اچھنبا محسوس ہوا.
ما رواه مسلم عنه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يجمع بين الظهر والعصر، والمغرب والعشاء، قال ابن شقيق: فحاك في صدري من ذلك شيء، فأتيت أباهريرة فسألته فصدق مقالته.
موجودہ زمانے کے اہل حدیث اور سلفی حضرات جو ہر روایت (کے ظاہر) پر عمل کی کوشش کرتے ہیں ان کے امام شیخ ابن عیثمین جو کہ سعودی عرب کے بڑے علماء میں سے تھے ان سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا:
شیخ ابن عیثمین کا جواب:
خود ابن عباس رضی اللہ عنہما پر اشکال کیا گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ حضور علیہ السلام امت پر حرج کم کرنا چاہتے تھے، لہذا اگر کہیں پر کوئی مشکل یا حرج ہو تو دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا جائز ہوگا، لیکن اگر کوئی حرج یا مشکل نہیں تو پھر دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرکے پڑھنا حرام اور ناجائز ہے، اور بلاعذر جمع کرنے والوں کیلئے اس روایت میں کوئی دلیل نہیں ہے.
• سئل العلامة العثيمين رحمه الله في “اللقاء المفتوح” 55/23:
السؤال: كيف توجه حديث ابن عباس في صحيح مسلم: (أن النبي صلى الله عليه وسلم جمع بين الظهر والعصر، وبين المغرب والعشاء، من غير خوف ولا سفر)؟
الجواب: نعم، (جمع في المدينة بين الظهر والعصر، وبين المغرب والعشاء، من غير خوف ولا مطر)، وهذه الرواية أصح من رواية: (ولا سفر)؛ لأن قوله: (ولا سفر) يغني عنه قوله: (في المدينة)، وعلى كل حال فإن هذا الإشكال الذي أوردته أورده الناس على ابن عباس رضي الله عنهما فقالوا: (ما أراد إلى ذلك؟ قال: أراد ألا يحرج أمته) أي: لا يلحقها حرج بترك الجمع. فمتى كان في ترك الجمع حرج فإنه يجوز الجمع، أما إذا لم يكن هناك حرج فإن الجمع حرام ولا يجوز؛ لقول الله تبارك وتعالى: {إِنَّ الصَّلاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَاباً مَوْقُوتاً} [النساء: ١٠٣]، ولأن النبي صلى الله عليه وسلم وقت هذه المواقيت وحدد الظهر من كذا إلى كذا والعصر كذلك، والمغرب والعشاء والفجر، فمن قدم شيئاً على وقته أو أخر شيئاً على وقته بغير عذر شرعي فإنه آثم ولا تقبل منه الصلاة؛ لقول النبي صلى الله عليه وسلم: “من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو رد”. ولا حجة في هذا الحديث لمن أجاز جمعاً بدون حاجة؛ لأن ابن عباس وضح هذا فقال: (أراد ألا يحرج أمته)، لو قال: أراد أن يوسع لأمته، لكان فيه احتمال أن يكون مراده أن الجمع جائز وتركه أفضل، لكن لما قال: (أراد ألا يحرج أمته)، علمنا أن المراد بذلك ما إذا كان في ترك الجمع حرج ومشقة.
انجینیئر محمد علی کے بارے میں:
انجینیئر محمد علی اور ان جیسے جتنے بھی لوگ ہیں ان کی مشکل یہ ہے کہ انہوں نے احادیث کے اردو ترجمے پڑھ کر روایات پر عمل اور حکم لگانا شروع کردیا ہے، حالانکہ چودہ سو(١٤٠٠) سال سے یہ روایات ہماری کتابوں میں موجود ہیں، لہذا پہلے یہ دیکھنا چاہیئے کہ اکابرین امت نے اس بارے میں کچھ فرمایا ہے یا نہیں.
اگر آپ اپنی رائے قائم کرتے ہیں اور آپ سے پہلے کسی بھی محدث یا فقیہ نے وہ رائے مقرر نہیں کی تو آپ کو ڈرنا چاہیئے کہ آپ کا راستہ درست سمت میں نہیں جارہا.
امام احمد بن حنبل رحمه اللہ کی اپنے شاگرد کو قیمتی نصیحت:
امام احمد رحمه اللہ نے اپنے شاگرد امام میمونی سے فرمایا: خبردار کوئی ایسی بات نہ کہنا جو تم سے پہلے کسی نے نہ کہی ہو.
قول الإمام أحمد لتلميذه الفقيه العالم الميموني: “إيّاك أن تقول قولا ليس لك فيه إمام”.
عربی کا مقولہ:
عربی کا مقولہ ہے کہ شاذ آدمی ہی شاذ اقوال بیان کرتا ہے.
قال: لا يأتيك بالقول الشاذ إلاّ الرجل الشاذ.
جب کوئی اجنبی بات سننے میں آئے تو پوچھ لو کہ کیا اس سے پہلے اس قول کا کوئی قائل موجود تھا یا نہیں.وما عليك إلا أن تطالبه بمن سبقه بذاك القول المخترع المبتدع الذي لا يعلم عالم سبق إليه …
خلاصہ کلام
مدینہ میں دو نمازوں کو جمع کرنے کی روایات اگرچہ صحیح ہیں لیکن امت کے تمام محدثین اور فقہاء نے ان روایات کی تاویل کی ہے اور ان روایات (کے ظاہر) پر عمل کو ناجائز اور اجماع کے خلاف قرار دیا ہے، لہذا جمع بین الصلواتین کا عمل اگر شیعہ کرتے ہیں تو وہ بھی غلط ہے، اور اگر کوئی اور شخص اس کی دعوت یا ترغیب دیتا ہے تو وہ بھی غلط ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ