سات زمینوں میں سات آدم علیہ السلام
سوال: ایک بات بہت زیادہ سننے میں آتی ہے کہ سات زمینیں ہیں اور ہر زمین پر ایسی ہی انسانیت بستی ہے اور ہر زمین پر نبوت کا ایسا ہی نظام ہے اور وہاں بھی حضرت آدم علیہ السلام سے لےکر تمام انبیاء کا سلسلہ چل رہا ہے.کیا یہ بات درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ یہ بات بلاشک وشبہ درست ہے کہ اللہ تبارک وتعالٰی نے سات آسمان اور سات زمینیں پیدا فرمائی ہیں اور یہ بات قرآن وحدیث سے بھی ثابت ہے. جیسا کہ فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے سات آسمان پیدا کئے اور زمینیں بھی اسی طرح سات ہیں.
قال الله تعالى :{اللهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا} (سورةالطلاق:١٢).
ساتوں زمینوں پر انبیائے کرام کا وجود:
جس طرح ہماری زمین پر انبیائے کرام علیہم السلام آتے رہے ہیں کیا اسی طرح ساتوں زمینوں پر نظام چلایا گیا ہے؟ اس بارے میں صحیح اور صریح احادیث خاموش ہیں اور براہ راست آپ علیہ السلام سے اس کے متعلق کچھ بھی ثابت نہیں. البتہ مختلف تفاسیر اور احادیث کی کتابوں میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی نسبت سے ایسی روایات ملتی ہیں جن میں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اس نظام نبوت کا سلسلہ تمام زمینوں پر چلایا گیا ہے.
ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول:
تفسیر طبری، امام حاکم اور امام بیہقی نے اپنی کتابوں میں یہ روایت نقل کی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ ہر زمین پر ایک ابراہیم علیہ السلام ہیں اور اسی طرح کی مخلوق ہے.
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ہر زمین پر تمہارے نبی کی طرح نبی ہیں اور تمہارے آدم کی طرح آدم ہیں اور تمہارے نوح کی طرح نوح اور تمہارے ابراہیم کی طرح ابراہیم اور عیسی کی طرح عیسی ہیں. (صلوات اللہ وسلامه علیهم).
روى الطبري في “تفسيره” (23/469)، والحاكم (3822)، والبيهقي في “الأسماء والصفات “(832): عَنْ أَبِي الضُّحَى عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ عَزَّوَجَلَّ: {اللهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ} قَالَ: فِي كُلِّ أَرْضٍ مِثْلُ إِبْرَاهِيمَ، وَنَحْوُ مَا عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْخَلْقِ.
– وفي لفظ: سَبْعَ أَرَضِينَ فِي كُلِّ أَرْضٍ نَبِيٌّ كَنَبِيِّكُمْ، وَآدَمُ كآدمَ، وَنُوحٌ كَنُوحٍ، وَإِبْرَاهِيمُ كَإِبْرَاهِيمَ، وَعِيسَى كَعِيسَى.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خود فرمایا کہ اگر میں اس کی تفسیر بیان کرنا شروع کردوں تو تم لوگ انکاری ہوجاؤ اور جھٹلانے لگ جاؤ.
ثم روى الطبري (23/469) عن إبراهيم بن مهاجر، عن مجاهد، عن ابن عباس، قال: لو حدثتكم بتفسيرها لكفرتم، وكفركم ھو تكذيبكم بها.
اس قول کی اسنادی حیثیت:
ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول مختلف تفاسیر اور کتب حدیث میں موجود ہے لیکن اس روایت کے ناقلین خود (اس روایت کو نقل کرنے کے بعد) اس پر سند اور متن کے لحاظ سے صحت کا حکم لگانے سے قاصر ہیں.
١. إمام بیہقی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ روایت اگرچہ سند کے لحاظ سے درست ہے لیکن اس کا متن انتہائی شاذ ہے کہ ابی الضحٰی کا کوئی متابع موجود ہی نہیں.
قال البيهقي في الأسماء والصفات (2/268): إسناد هذا عن ابن عباس رضي الله عنهما صحيح، وهو شاذ بمرة، لا أعلم لأبي الضحى عليه متابعا… والله أعلم.
☆ حدیث شاذ اس روایت کو کہتے ہیں کہ جس کی ظاہری سند تو درست ہو لیکن اس کے باطن میں ایسا عیب ہو جو اس روایت کو منکر بنادے.
والحديث الشاذ هو ما كان ظاهر اسناده الصحة وباطنه من قبله التفرد والنكارة.
٢. ابن کثیر نے إمام بیہقی کا قول نقل کرکے فرمایا کہ اگر اس روایت کی سند کو درست مان بھی لیا جائے تب بھی یہ بات اسرائیلیات میں سے تو ہوسکتی ہے، لیکن اس سے زیادہ اس کی حیثیت نہیں.
ونقل ابن كثير كلام البيهقي، وأقره (تفسير ابن كثير 4/386) وقال في موضع آخر: هو محمول (إن صح نقله عنه) على أنه أخذه ابن عباس رضي الله عنهما عن الإسرائيليات. (البداية والنهاية: 1/22).
٣. امام أحمد بن حنبل سے جب اس روایت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اس روایت کی صحت کا انکار کیا.
وقال الخلال: أخبرني أحمد بن أصرَم الُمزني أن أبا عبدالله (يعني الإمام أحمد) سُئل عن هذا الحديث، فقال: هذا رواه شعبة، عن عمرو بن مُرّة، عن أبي الضحى، عن ابن عباس، لا يذكر هذا، إنما يقول: “يتنزّل العلمُ والأمرُ بَيْنهنّ”. وعطاء بن السائب اختلط، وأنكر أبوعبدالله الحديث. وعن قتادة قال: في كل سماءٍ وكل أرضٍ خلقٌ من خلقه، وأمر من أمره، وقضاءٌ من قضائه. (المنتخب من العلل للخلال 58، منهج الإمام أحمد في إعلال الأحاديث 1/412).
٤. امام ذہبی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اس روایت کی کوئی اصل موجود ہی نہیں، اس جیسی روایات کا سننے والا تعجب اور حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہے، یہ روایت ان چیزوں میں سے ہے کہ سنو اور خاموش رہو.
وقال الذهبي: لا نعتقد ذلك أصلا… شريك وعطاء فيهما لين لا يبلغ بهما رد حديثهما، وهذه بلية تحير السامع كتبتها استطرادا للتعجب، وهو من قبيل اسمع واسكت. (العلو للعلي الغفار 161).
٥. ابوحیان الأندلسي نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے.
وقال أبوحيان الأندلسي: هذا حديث لا شك في وضعه. (تفسير البحر المحيط 8/283).
٦. علامہ سیوطی نے اس روایت کو شاذ کی بحث میں ذکر کیا ہے اور فرمایا کہ مجھے حاکم رحمه اللہ کے (اس روایت کو) صحیح کہنے پر تعجب ہے، اور اسی وجہ سے بیہقی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیتے ہوئے اس روایت کو شاذ قرار دیا ہے.
وذكره السيوطي في مبحث الشاذ وهو نوب من تصحيح الحاكم له حتى رأيت البيهقي قال: إسناده صحيح ولكنه شاذ بمرة. (تدريب الراوي: 1/233، وانظر “توجيه النظر إلى أصول الأثر” لطاهر الجزائري ص:512).
٨. امام سیوطی نے ایک مقام پر اس روایت کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ امام بیهقی کا اس روایت کو شاذ کہنا ہی بہترین توجیہ ہے کیونکہ بعض اوقات سند درست ہوتی ہے لیکن متن درست نہیں ہوتا اور یہ روایت جس نوعیت کی ہے اس میں اتنی ضعیف روایات قبول نہیں کی جاتیں.
وقال السيوطي رحمه الله في “الحاوي” (1/462): هَذَا الْحَدِيثُ رَوَاهُ الحاكم فِي الْمُسْتَدْرَكِ وَقَالَ: صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَرَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ وَقَالَ: إِسْنَادُهُ صَحِيحٌ وَلَكِنَّهُ شَاذٌّ بِمَرَّةٍ، وَهَذَا الْكَلَامُ مِنَ الْبَيْهَقِيِّ فِي غَايَةِ الْحُسْنِ؛ فَإِنَّهُ لَا يَلْزَمُ مِنْ صِحَّةِ الْإِسْنَادِ صِحَّةُ الْمَتْنِ كَمَا تَقَرَّرَ فِي عُلُومِ الْحَدِيثِ؛ لِاحْتِمَالِ أَنْ يَصِحَّ الْإِسْنَادُ وَيَكُونُ فِي الْمَتْنِ شُذُوذٌ أَوْ عِلَّةٌ تَمْنَعُ صِحَّتَهُ، وَإِذَا تَبَيَّنَ ضَعْفُ الْحَدِيثِ أَغْنَى ذَلِكَ عَنْ تَأْوِيلِهِ؛ لِأَنَّ مِثْلَ هَذَا الْمَقَامِ لَا تُقْبَلُ فِيهِ الْأَحَادِيثُ الضَّعِيفَةُ.
٩. ابن کثیر رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ زمینوں کے متعلق جتنی روایات نقل کی جاتی ہیں کہ پہلی زمین مٹی کی، دوسری لوہے کی اور اس کے نیچے والی اس اس طرح کی ہے یہ سب باتیں جب تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک صحیح سند سے ثابت نہ ہوں تو یہ سب باتیں مردود ہیں.
وقال ابن كثير رحمه الله في “البداية والنهاية” (1/42): مَا يَذْكُرُهُ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، وَتَلَقَّاهُ عَنْهُمْ طَائِفَةٌ مِنْ عُلَمَائِنَا مِنْ أَنَّ هَذِهِ الْأَرْضَ مِنْ تُرَابٍ، وَالَّتِي تَحْتَهَا مِنْ حَدِيدٍ، وَالْأُخْرَى مِنْ حِجَارَةٍ مِنْ كِبْرِيتٍ، وَالْأُخْرَى مِنْ كَذَا. فَكُلُّ هَذَا إِذَا لَمْ يُخْبَرْ بِهِ وَيَصِحَّ سَنَدُهُ إِلَى مَعْصُومٍ فَهُوَ مَرْدُودٌ عَلَى قَائِلِهِ.
خلاصہ کلام
اس روایت پر محدثین کے کلام سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس روایت کی سند درست نہیں. اگر سند کو درست مان بھی لیا جائے تب بھی متن میں انتہائی نکارت موجود ہونے کی وجہ سے آپ علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت کرنا تو بلکل بھی درست نہیں، بلکہ زیادہ سے زیادہ اس کو اسرائیلیات میں سے شمار کرسکتے ہیں، لیکن اس طرح کی روایات سے اتنا بڑا دعوی ثابت نہیں ہوسکتا، لہذا اس کو آپ علیہ السلام کی طرف منسوب نہ کیا جائے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ