حضرت حوا کا مہر
سوال: ایک روایت کثرت سے بیان کی جاتی ہے اور بہت ساری کتابوں میں لکھی گئی ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرت حواء کا مہر درود شریف کو مقرر فرمایا تھا. اس بات کی تحقیق مطلوب ہے.
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ ایسی کوئی روایت کسی بھی مستند کتاب میں کسی صحیح یا ضعیف سند سے ثابت نہیں، اس روایت کے جتنے بھی مراجع ملے ہیں وہ تمام کے تمام بغیر سند کے ہی اس روایت کو نقل کرتے ہیں اور احادیث کی تحقیق کرنے والے تمام اداروں نے بھی اس روایت کی سند کے نہ ملنے کا اقرار کیا ہے.
اس روایت پر شیخ طلحہ منیار صاحب کی تحقیق:
یہ روایت سیرت، قصص ومواعظ، اور بعض فقہ کی کتابوں میں بلا سند مذکور ہوتی ہے، بعض مصنفین اس کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما، یا وہب بن منبہ رحمه اللہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں.
اس روایت کے الفاظ اور مقدار مہر میں کافی اضطراب واختلاف نقل کیا جاتا ہے، مہر کی مقداریں یہ ہیں: (تین مرتبہ، دس، بیس، سو، ہزار) پھر سو اور ہزار مرتبہ والی روایتوں میں ایک سانس میں پڑھنے کی زائد قید بھی مذکور ہے، اور بتایا گیا کہ حضرت آدم علیہ السلام ستر مرتبہ یا پانچ سو مرتبہ تک پڑھ پائے، پھر ان کی سانس ٹوٹ گئی، تو اللہ تعالی نے فرمایا: یہ مہر معجل ہے، مؤجل آپ کے ذمہ باقی رہےگا.
مہر معجل: مہر کی وہ مقدار جو فورا ادا کی جائے.
مہر مؤجل: مہر کی وہ مقدار جو بعد میں ادا کی جائے.
بظاہر یہ روایت اسرائیلیات میں سے ہے، اس کی کوئی معتبر سند موجود نہیں. جو مصنفین حضرات اس طرح کی روایات نقل کرتے ہیں، یہ ان کا تسامح وتساہل ہے.
درودشریف کی مختلف مقداریں اور انکے حوالے:
مختلف کتابوں میں درودشریف کی مختلف مقداریں مذکور ہیں، ذیل میں وہ مقداریں اور ان کے حوالے نقل کئے جاتے ہیں:
تین مرتبہ درود شریف پڑھنا:
– المواهب اللدنية بالمنح المحمدية 1/50،
– نزهة المجالس ومنتخب النفائس 2/172
– الشرح الكبير للدردير المالكي وحاشية الدسوقي 4/496
دس مرتبہ درود شریف پڑھنا:
– بستان الواعظين لابن الجوزي رقم:478
– سعادة الدارين للنبهاني، الباب الثالث برقم:6
– نزهة المجالس ومنتخب النفائس 2/25
بیس مرتبہ درود شریف پڑھنا:
– المواهب اللدنية بالمنح المحمدية (1/50) نقلا عن ابن الجوزي في كتابه «سلوة الأحزان»،
– الشرح الكبير للشيخ الدردير 4/496
سو مرتبہ درود شریف پڑھنا:
– إعانة الطالبين على حل ألفاظ فتح المعين 3/395
ایک ہزار مرتبہ درود شریف پڑھنا:
[- إعانة الطالبين على حل ألفاظ فتح المعين (3/395) أيضا].
شیخ کی اس روایت کو اسرائیلیات قرار دینے کی وجہ اس روایت کا ان حضرات کی طرف منسوب ہونا ہے جو حضرات اسرائیلیات بیان کرنے میں معروف ہیں، مثلاً: مقاتل بن سلیمان سے منقول ہے.
قال: لما أراد الله أن يزوج حواء من آدم قال: ياآدم! لابد من المهر، فقال: يارب! وما مهرها؟ قال: أن تصلي على ولدك عشر مرات؛ فصلى عشرا.
قال مقاتل: فلذلك قوله عليه السلام: من صلى علي مرة صلى الله عليه عشرا. كتاب المبتدا
اسی طرح یہ روایت بغیر سند کے وہب بن منبہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف بھی منسوب کی جاتی ہے.
ہمارا ذاتی رجحان:
اس روایت کا حدیث ہونا تو باتفاق محدثین ثابت نہیں، البتہ اس واقعہ کا اسرائیلیات میں سے ہونے کے بارے میں ہماری ذاتی رائے یہی ہے کہ ایسی کوئی سند ہماری نظر سے نہیں گذری، البتہ سیرت کی کتابوں میں اس بات کے کثرت سے پائے جانے کی وجہ سے بعض حضرات نے اس کو اسرائیلیات میں سے قرار دیا ہے.
خلاصہ کلام
محدثین حضرات کا اس پر اتفاق ہے کہ اس بات کا حدیث میں ثبوت موجود نہیں، لہذا آپ علیہ السلام کی طرف اس بات کو منسوب نہ کیا جائے.
چونکہ اس پر واضح طور پر موضوع ہونے کا حکم بھی کسی محدث سے ثابت نہیں لہذا بعض حضرات نے احتیاطا اسکو اسرائیلیات قرار دیا ہے لیکن درود شریف کے عظیم الشان صحیح ذخیرے کی موجودگی میں اس روایت کو ہی ہر جگہ بطور فضیلت ذکر کرنا چنداں درست عمل قرار نہیں دیا جاسکتا.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ