قیامت کے روز امت کا حساب
سوال: ایک روایت ہمارے ہاں مشہور ہے کہ معراج کی رات حضور اقدس ﷺ نے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ اے اللہ! میری امت کا حساب میرے ہاتھ میں دے دینا تاکہ میری امت کے عیوب پر میرے علاوہ کوئی شخص مطلع نہ ہو تو اللہ رب العزت کی طرف سے جواب آیا کہ اے احمدﷺ! میں اپنے بندوں کا ایسا حساب لونگا کہ تجھے بھی ان کے گناہوں کی اطلاع نہ ہوسکےگی… اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے۔
الجواب باسمه تعالی
یہ ایک طویل روایت کا حصہ ہے جس میں معراج پر آپ علیہ السلام کا تشریف لے جانا اور پھر وہاں جبریل علیہ السلام اور اللہ تعالی سے مختلف مکالمات کا ذکر ہے، یہ تمام روایت من گھڑت ہے.
روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ میری امت کا حساب میرے ہاتھ میں دے دیجیئے، تو جواب ملا کہ اے احمد! یہ میرے بندے ہیں، میں ان کے عیوب آپ پر بھی نہیں کھولونگا تو آپ علیہ السلام نے عرض کیا کہ الہی! گناہگاروں کا کیا ہوگا؟ تو اللہ تعالی کی طرف سے جواب آیا کہ جب مجھ جیسا رحیم اور تجھ سا شفیع موجود ہیں تو گناہگاروں کو کیا ڈر ہے۔
عن ابي القاسم محمود بن الفرج بن أبي القاسم المقرئ الكرخي أنبأنا أبوحفص عمر بن أبي بكر المقرئ أنبأنا أبو الصفا تامر بن علي أنبأنا منصور بن محمد بن علي الأصبهاني المذكر أنبأنا محمد بن أحمد بن إبراهيم القاضي ثنا محمد بن أيوب الرازي ثنا القعسي عن سلمة بن وردان عن ثابت البناني عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “ليلة أسري بي إلى السماء سألت ربي عزوجل فقلت: إلهي وسيدي! اجعل حساب أمتي على يدي لئلا يطلع على عيوبهم أحد غيري، فإذا النداء من العلى: يا أحمد! إنهم عبادي؛ لا أحب أن أطلعك على عيوبهم، فقلت: إلهي وسيدي ومولائي! المذنبون من أمتي؟” فإذا النداء من العلا: ياأحمد! إذا كنت أنا الرحيم وكنت أنت الشفيع فأين المذنبون بيننا! فقلت: حسبي حسبي.”
اس روایت میں یہ راوی جھوٹ بنانے والا ہے۔
فيه محمد بن علي المذكر
اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ ان پر جھوٹ کی تہمت ہے اور یہ مختلف سندوں کو جوڑ کر روایت بناتا ہے۔
قال في المغني: متهم تالف.
امام سیوطی کہتے ہیں کہ یہ روایت اس نے گھڑی ہے۔
قال السيوطي: وأخلق بهذا الحديث أن يكون من وضعه.
اسی نوع کی ایک اور روایت بھی ہے جس کا راوی بھی جھوٹا ہے.
• ورواه إسحاق بن بهلول، عن أبيه، عن ورقاء، عن جابر، عن الشعبي، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم حجمه أبوهند، واسمه الحارث بن مالك.
وفي رواية أخرى “تذكرة الموضوعات” للفتني قال:
وفي الذيل: “ليلة أسري بي سألت الله عزوجل فقلت: إلهي وسيدي! اجعل حساب أمتي على يدي لئلا يطلع على عيوبهم أحد غيري، فإذا النداء من العلي: ياأحمد! إنهم عبادي؛ لا أحب أن أطلعك على عيوبهم، فقلت: إلهي وسيدي ومولاي! المذنبون من أمتي؟ فإذا النداء من العلي: ياأحمد! إذا كنت أنا الرحيم وكنت أنت الشفيع فأين تبين المذنبون؟ فقلت: حسبي حسبي”.
– قال: فيه محمد بن أيوب: كذاب.
خلاصہ کلام
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے شفاعت کبری کا ایک بہت بڑا مقام اور اعزاز عطا فرمایا ہے جس کی برکت سے انشاءاللہ اس امت کے گناہگاروں کی سفارش ہوگی اور امت کو جہنم سے بچا کر جنت میں لے جائینگے، لیکن اس اعزاز کیلئے یا آپ علیہ السلام کی شفقت کو بتانے کیلئے ایسے من گھڑت واقعات کی چنداں ضرورت نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ