حضرت ابراہیم علیہ السلام اور مجوسی
سوال: مختلف بیانات میں یہ واقعہ سنا ہے کہ
” حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس ایک مہمان آیا تو آپ علیہ السلام نے اس کو کھانا کھلانے سے پہلے اس سے اسکے ایمان کے بارے میں پوچھا تو اس شخص نے کہا کہ میں مجوسی ہوں، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسکی مہمانی کرنے سے انکار کردیا تو وہ شخص چلا گیا.. اللہ تعالی نے وحی فرمائی کہ اے ابراہیم! ہم اس شخص کو اسکے کفر کے باوجود چالیس سال سے کھلا رہے ہیں اور آپ نے ایک وقت کا کھانا کھلانے سے انکار کردیا؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام اسکی طرف دوڑے اور دوبارہ اسکو اپنا مہمان بنانے کیلئے اسکی خوشامد کرنے لگے، تو اس نے حیرانی سے پوچھا کہ ابھی تو آپ نے کھانا کھلانے سے انکار کردیا تھا اور اب منتیں کررہے ہو؟ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سارا قصہ سنایا تو اس شخص نے کہا کہ جب مالک اتنا کریم ہے تو تم گواہ رہو کہ میں بھی مسلمان ہوتا ہوں”.
اس واقعے کی تحقیق مطلوب ہے.
الجواب باسمه تعالی
یہ واقعہ کسی بھی مستند یا ضعیف سند کے ساتھ کسی بھی معتبر کتاب میں موجود نہیں، البتہ کچھ الفاظ کے فرق کے ساتھ یہ واقعہ نزہت المجالس نامی کتاب میں بغیر سند کے ذکر کیا گیا ہے.
فقد ذكرها صاحب کتاب “نزهة المجالس” وعبارته: حضر مجوسي عند إبراهيم عليه السلام فجاءه بطعام ثم قال: هل لك في الإسلام رغبة؟ فترك الأكل وانصرف، فأوحى الله إليه ياإبراهيم! أنا أرزقه على كفره منذ أربعين سنة وأنت تريد أن ترده عن دينه بأكلة واحدة، فخرج فی طلبه فوجده فأخبره بذلك، فأسلم ورجع معه إلى طعامه.
کتاب “نزہت المجالس” کی اسنادی حیثیت:
علامہ صفوری کی یہ کتاب ہر قسم کے صحیح اور غیرمستند واقعات سے بھری پڑی ہے، لہذا علمائے حدیث اس کتاب میں مذکور کسی بھی بات کو (جو بغیر سند کے نقل کی گئی ہو) قبول کرنے کو تیار نہیں.
سوال میں مذکور واقعہ چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں ہے لہذا جرح و تعدیل کے سخت قواعد اس پر لاگو نہیں ہونگے، لیکن اس واقعہ کا کہیں بھی سند کے ساتھ ذکر نہ ہونا اور کسی بھی معتبر محدث کا اس کو ذکر نہ کرنا اور نہ ہی اسرائیلیات کی تصریح کا ہونا اس کے شدید ضعیف ہونے کو بتاتا ہے.
خلاصہ کلام
اس واقعے کو من گھڑت یا جھوٹا کہنا تو مشکل ہے، البتہ اس طرح کے مہمل اور بےسند واقعات کے بارے میں ہمارا ذاتی رجحان یہ ہے کہ انکو بیان نہ کیا جائے، اسلئے کہ ایک عظیم الشان نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف نسبت کرنا بھی بہت بڑی بات ہے
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ