گدھی کا دودھ
سوال: ایک جگہ سنا ہے کہ گدھی کا دودھ حرام نہیں، صرف مکروہ ہے، نیز کیا دوا کے طور پر اس دودھ کا استعمال جائز ہے؟
اس مسئلے کی پوری وضاحت مطلوب ہے.
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ دودھ کا بھی وہی حکم ہوگا جو گوشت کا حکم ہوتا ہے، لہذا جس جانور کا گوشت حلال ہے اسکا دودھ بھی حلال ہے اور جس کا گوشت حرام اسکا دودھ بھی حرام ہے، تو چونکہ گدھے کا گوشت باتفاق امت حرام ہے، لہذا گدھی کا دودھ بھی حرام ہے.
هي نجسة محرّمة عند المالكيّة والشّافعيّة والحنابلة؛ وهي مكروهة عند الحنفيّة، لکن
القول الصحیح انه نجس.
راجع: حاشية ابن عابدين:(5/216)،
– ومغني المحتاج (1/80)،
– ونهاية المحتاج (1/227)،
– وكشاف القناع (1/195)،
– والمغني (8/587)،
– وجواهر الإكليل (1/9، 218)،
– والدسوقي (1/50 – 51)، 2/117)].
احناف کا راجح قول:
احناف کے ہاں گدھی کے دودھ کے بارے میں (اگرچہ بعض فقہاء نے کراہت کا قول نقل کیا ہے لیکن) راجح قول حرمت کا ہے.
ففيه عند الأحناف والشافعية روايتان، والصحيح من كلٍ أنه نجس.
قال صاحب “فتح القدير” وهو حنفي: وعن عين الأئمة الصحيح أنه نجس نجاسة غليظة لأنه حرام بالإجماع، وفي فتاوى قاضي خان: وفي طهارة لبن الأتان روايتان.
شوافع کے نزدیک بھی حرمت راجح ہے.
وقال النووي في “المجموع” وهو شافعي: وحكى الدارمي في آخر كتاب السلم في لبن الأتان ونحوها ثلاثة أوجه، الصحيح أنه نجس.
مالکیہ کے نزدیک بھی حرمت راجح ہے.
وأما المالكية، فقد قال خليل وهو يعدد الأعيان الطاهرة: ولبن آدمي إلا الميت، ولبن غيره تابع. يعني أن لبن غير الآدمي تابع للحمه، فإن كان محرم الأكل كالأتان كان لبنه نجسا.
حنابلہ کے نزدیک بھی حرمت راجح ہے.
○ أما عن الحنابلة فقد قال صاحب “الإقناع”: ولبن غيرمأكول اللحم وبيضه ومنيه من غير آدمي نجس.
☆ فقہاء اور محدثین نے گدھے کے گوشت اور دودھ کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے.
– قال ابن قدامة رحمه الله: أكثر أهل العلم يرون تحريم الحمر الأهلية.
– قال أحمد: خمسة عشر من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم كرهوها.
– قال ابن عبدالبر: لا خلاف بين علماء المسلمين اليوم في تحريمها. (“المغني” 9/324).
وإذا حرم لحمها حرم لبنها.
– قال ابن قدامة رحمه الله في “المغني” (9/325): وألبان الحمر محرمة، في قول أكثرهم. ورخص فيها عطاء، وطاؤوس والزهري. والأول أصح؛ لأن حكم الألبان حكم اللحمان
● دوا کے طور پر اسکا استعمال کرنا:
سوال: کیا بطور دوا اس دودھ کا استعمال جائز ہے؟
جواب: جو چیز نجس ہے اس کو بطور دوا استعمال کرنا بھی درست نہیں ہے کیونکہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے میری امت کی شفا حرام چیزوں میں نہیں رکھی.
وقال أيضا (9/338): “وَلا يَجُوزُ التَّدَاوِي بِمُحَرَّمٍ، وَلا بِشَيْءٍ فِيهِ مُحَرَّمٌ، مِثْلِ أَلْبَانِ الأُتُنِ (جمع أتان وهي أُنثى الحمار)، وَلَحْمِ شَيْءٍ مِن الْمُحَرَّمَاتِ، وَلا شُرْبِ الْخَمْرِ لِلتَّدَاوِي بِهِ؛ لِقَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم: “إنَّ اللهَ لَمْ يَجْعَلْ شِفَاءَ أُمَّتِي فِيمَا حَرَّمَ عَلَيْهَا”.
آپ علیہ السلام کے سامنے جب شراب کا تذکرہ ہوا کہ اسکو بطور دوا استعمال کرنے کیلئے بناتے ہیں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ دوا نہیں بلکہ بیماری ہے.
وَلأَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم ذُكِرَ لَهُ النَّبِيذُ يُصْنَعُ لِلدَّوَاءِ فَقَالَ: “إنَّهُ لَيْسَ بِدَوَاءٍ، وَلَكِنَّهُ دَاءٌ”.
گدھے کی حرمت کی تاریخ:
پالتو گدھے کا گوشت ابتدائے اسلام میں حلال تھا لیکن غزوہ خیبر کے موقعے پر آپ علیہ السلام نے اس کی حرمت کا حکم فرمایا.
روى البخاري (5520) عن جابر بن عبدالله رضي الله عنهما «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ، وَأَذِنَ فِي لُحُومِ الْخَيْلِ».
وروى البخاري (5527)
ومسلم (1936) عن أبي ثَعْلَبَةَ، قَالَ: «حَرَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لُحُومَ الحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ».
☆ جو چیز حرام ہے اس کو بطور دوا استعمال کرنا بھی درست نہیں ہے.
وقال في “شرح المنتهى” (3/412): “ويحرم ترياق (دواء السموم) فيه من لحوم الحيات، أو الحمر، وتداووا بألبان حمر، وكل محرم”.
● سعودی عرب کے سب سے بڑے دارالافتاء سے جب گدھی کے دودھ کو بطور دوا استعمال کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ اس دودھ کو بطور دوا استعمال کرنا درست نہیں.
وجاء في “فتاوى اللجنة الدائمة”(25/31): “لا يجوز التداوي بشرب ألبان الحمر الأهلية”.
☆ گدھے کی حرمت پر نہ صرف امت کے فقہاء کا اجماع ہے بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی اس پر اجماع ہے.
یہ حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ کے علاوہ بھی تقریبا چودہ صحابہ کرام سے مروی ہے جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
حديث عن أبي هريرة رضي الله عنه، وعن أبي ثعلبة، وعن جابر، وعن البراء بن عازب، وعن عبدالله بن عمر، وعن عبدالله بن عمرو بن العاص، وعن علي بن أبي طالب، وعن العرباض بن سارية، وعن المقدام بن معديكرب، وعن الحكم بن عمرو الغفاري، وعن خالد بن الوليد، وعن زاهر الأسلمي وغيره، ان سب حضرات نے بھی گھریلو گدھے کے حرام ہونے کے بارے میں آپ ﷺ سے حدیث نقل کی ہے.
گھریلو گدھے کے حرام ہونے کے بارے میں آپ ﷺ سے حدیث نقل کی ہے.
مظاہر حق:
مظاہر حق شرح مشکوة میں خلاصہ ذکر کیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح گدھی کا گوشت حرام ہے اسی طرح اس کا دودھ پینا بھی جائز نہیں ہے. (مظاهر حق، شرح مشكاة، جلد: 4 حديث: 34)
● حضرت مولانا یوسف لدھیانوی صاحب رحمه اللہ:
استاد محترم حضرت مولانا یوسف لدھیانوی صاحب رحمه اللہ سے سوال کیا گیا کہ:
سوال: آج کل ہمارے یہاں جس کسی کو کالی کھانسی ہوجاتی ہے تو اسے گدھی کا دُودھ پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے، اور بہت سے لوگ ایسا کر گذرتے ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ ہمارے مذہب میں گدھی کا دُودھ پینا تو حرام ہے، پھر کیا بطور دوائی اس کا استعمال حلال ہوجاتا ہے؟
جواب: گدھی کا دُودھ حرام ہے، اور دوائی کے طور پر بھی اس کا استعمال دُرست نہیں جبکہ حلال دوائی سے علاج ہوسکتا ہو. (آپ کے مسائل اور ان کا حل).
خلاصہ کلام
گدھی کا دودھ بلکل صراحتا حرام ہے اور جب تک کوئی حلال متبادل موجود ہو اس دودھ کو بطور دوا استعمال کرنا درست نہیں ہے، لہذا اس دودھ کے متعلق کچھ لوگوں کے جو بیانات سامنے آئے ہیں وہ محض کم علمی اور جہالت پر مبنی ہیں
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٦ اپریل ٢٠١٨