جھوٹ کی نحوست وگناہ
سوال: ایک روایت سنی ہے کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھ میں چار خامیاں ہیں، اگر آپ فرمائیں تو آپ کیلئے ایک چھوڑ سکتا ہوں، حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جھوٹ چھوڑ دو، اس نے جھوٹ چھوڑ دیا تو باقی سارے گناہ بھی اس سے چھوٹ گئے…کیا یہ واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
مذکورہ روایت کسی بھی مستند (صحیح یا ضعیف) سند سے کہیں بھی منقول نہیں، البتہ بعض مواعظ کی کتابوں میں یہ واقعہ بغیر سند کے منقول ہے اور زیادہ تر شیعوں کی کتابوں میں اس واقعے کو اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں یہ واقعہ سند کے لحاظ سے درست نہیں.
جاء في كتاب “المحاسن والأضداد” للجاحظ (ص:14)، وكتاب “ربيع الأبرار” للزمخشري (ص/376):
قال رجل للنبي صلى الله عليه وسلم: أنا أستسر بخلال أربع: الزنا، والسرقة، وشرب الخمر، والكذب، فأيتهن شئت تركت لك يارسول الله! قال: دع الكذب. فلما تولى همَّ بالزنا، فقال: يسألني، فإن جحدت نقضته ما جَعلتُ له، وإن أقررت حددت أو رجمت. ثم هم بالسرقة، ثم في شرب الخمر، ففكر في مثل ذلك. فرجع إليه فقال: قد أخذت علي السبيل، قد تركتهن أجمع… انتهى.[ومثله في كتاب “التذكرة الحمدونية” (ص:301)، والكامل في الأدب للمبرد (2/156)].
خلاصہ کلام
یہ روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں ہے، البتہ جھوٹ کے متعلق مضمون درست روایات سے ثابت ہے
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٧ رمضان المبارك ١٤٣٩
٢ جون ٢٠١٨