حادثات سے حفاظت والی دعا
سوال: ایک صاحب نے یہ بیان کیا کہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے حادثات سے حفاظت کیلئے ایک دعا بتائی ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے براہ راست اپنے نبی صلی اللہ علیه وسلم سے یہ سنا ہے، اور اگر میں غلط کہوں تو میری آنکھیں اندھی ہوجائیں اور میرے کان بہرے ہوجائیں، اللہ کی قسم میرے نبی نے فرمایا کہ اس دعا کو پڑھنے والا ہر قسم کے حادثات (ایکسیڈنٹ وغیرہ) سے محفوظ رہےگا، اگر ہوا تو (حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ) قیامت میں میرا گریبان پکڑ لینا.
وہ دعا درج ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
{وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَی عَمَّا يُشْرِكُونَ○} {بِسْمِ اللهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ○}
میں کہتا ہوں کہ اسٹیئرنگ آپ کے ہاتھ میں ہوگا لیکن گاڑی اللہ چلاتا ہوگا، جب اللہ نے کہہ دیا کہ ایکسیڈنٹ نہیں ہوگا تو ممکن نہیں کہ کوئی حادثہ ہو.
اس روایت کے بارے میں تحقیق فرمادیجئے
الجواب باسمه تعالی
اس روایت میں چند امور کی وضاحت ضروری ہے:
١. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول کہ اگر میں غلط کہوں تو میری آنکھیں اندھی ہوجائیں اور میرے کان بہرے ہوجائیں.
یہ حصہ کسی ضعیف یا ضعیف ترین روایت سے بھی ثابت نہیں.
٢. اگر یہ دعا پڑھنے کے بعد ایکسیڈنٹ ہوجائے تو قیامت کے دن میرا گریبان پکڑ لے.
یہ حصہ بعض کتب میں بغیر سند کے صرف اتنا ہے کہ “اس شخص کا نقصان میرے ذمے ہے”.
جیسے علامہ مناوی نے فیض القدیر میں نقل کیا ہے:
“من قرأ الآیتین فعطب أو غرق فعلی ذلك (2/182).
لہذا اس حصے کو بھی غیر ثابت ہی کہا جائےگا.
سوال میں مذکور روایت کا مفہوم:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نقل کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ غرق ہونے سے میری امت کی حفاظت اس طرح ہوگی کہ جب وہ سمندر کے سفر کیلئے کشتی میں سوار ہوجائیں تو یہ آیت پڑھیں {وما قدروا اللہ…..}الخ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْأَيْلِيُّ الْمُفَسِّرُ، ثنا عُمَرُ بْنُ يَحْيَی الْأَيْلِيُّ، ثنا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ الْحَسَنِ الْهِلَالِيُّ، عَنْ نَهْشَلٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ مُزَاحِمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “أَمَانٌ لِأُمَّتِي مِنَ الْغَرَقِ إِذَا رَكِبُوا السُّفُنَ وَالْبَحْرَ أَنْ يَقُولُوا: بِسْمِ اللهِ الْمَالِكِ {وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَی عَمَّا يُشْرِكُونَ}،{بِسْمِ اللهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ}” الدعاء للطبراني (ص: 255)، وكذلك المعجم الكبير [12/97/12661] والمعجم الأوسط للطبراني [6/184/6136] .
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
١. اس روایت کی سند میں نہشل بن سعید ایک راوی ہے جس کو جھوٹا کہا گیا ہے.
نھشل بن سعید متروك، متهم بالکذب ہے. (میزان: 4/275)۔
علامہ ہیثمی فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند میں نہشل بن سعید ایک راوی ہے جو کہ متروک ہے. (10/132)
دوسرے راوی سوید بن سعید ہیں جو کہ نابینا ہوگئے تھے جس کی وجہ سے جو کچھ ان سے کہا جاتا تھا وہ بیان کردیتے تھے، اس لئے محدثین نے ان کو متروک قرار دیا ہے. (میزان: 2/248).
یہ روایت سند کے لحاظ سے ثابت نہیں.
اس روایت کے شواہد:
اس روایت کے شواہد دو روایات ہیں: ایک روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور دوسری روایت حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے منقول ہے لیکن یہ دونوں روایات بھی سند کے لحاظ سے درست نہیں کیونکہ حضرت علی کی روایت کی سند میں ایک راوی محمد بن الفرخان ابوالطیب جھوٹا راوی ہے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ والی روایت بھی سند کے لحاظ سے انتہائی کمزور ہے اس لئے کہ اس کی سند میں جبارہ بن مغلس اور علاء بن مروان دونوں پر جھوٹ کی تہمت ہے.
(تفصیل کیلئے شیخ طلحہ منیار صاحب کی سائٹ کا مطالعہ کریں)
خلاصہ کلام
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما والی یہ روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٣ جولائی٢٠١٨
مدینہ منورہ