عوج بن عنق
سوال: ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ
حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں ایک شخص جس کا نام ہیچ کافر تھا اور وہ شخص اتنا لمبا تھا کہ باوجود یہ کہ موسی علیہ السلام کا قد ہزار گز تھا اور آپ کا عصا بھی سینکڑوں گز لمبا تھا اور آپ نے چھلانگ بھی سینکڑوں گز لگائی پھر بھی اس کافر کے صرف ٹخنے تک ہی پہنچ سکے اور مرنے کے بعد اس کے انگوٹھے میں پل بنایا گیا.
برائے مہربانی اس کی تحقیق فرمادیجئے
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور شخص کا نام تاریخ میں “عوج بن عنق” لکھا گیا ہے اور اس شخص کے بارے میں اتنی متضاد باتیں منقول ہیں کہ ان میں سے کسی بات کو تسلیم کرنا انتہائی مشکل ہے.
● عوج کا تین ہزار تین سو تیس(٣٣٣٠)گز لمبا قد:
علامہ ابن کثیر نے اس کا تذکرہ کیا ہے کہ یہ اولاد آدم میں سے زنا کی پہلی اولاد تھی اور اس کا قد تین ہزار تین سو تیس(٣٣٣٠)گز تھا اور یہ سمندر کی گہرائی سے مچھلی پکڑ کر سورج کی تپش میں پکاتا تھا.
اس کے بعد علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ فضولیات اگر تاریخ اور تفسیر کی کتابوں میں نہ لکھی ہوتیں تو ہم کبھی بھی اسکو نہ لکھتے.
قال ابن كثير رحمه الله: وَالْمَقْصُودُ أَنَّ اللهَ لَمْ يُبْقِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا، فَكَيْفَ يَزْعُمُ بَعْضُ الْمُفَسِّرِينَ: أَنَّ عُوَجَ بْنَ عُنُقَ، وَيُقَالُ: ابْنَ عِنَاقَ، كَانَ مَوْجُودًا مِنْ قَبْلِ نُوحٍ إِلَى زَمَانِ مُوسَى. وَيَقُولُونَ: كَانَ كَافِرًا مُتَمَرِّدًا جَبَّارًا عَنِيدًا، وَيَقُولُونَ: كَانَ لِغَيْرِ رِشْدَةٍ، بَلْ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ عُنُقُ بِنْتُ آدَمَ مِنْ زِنًا، وَأَنَّهُ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ طُولِهِ السَّمَكَ مِنْ قَرَارِ الْبِحَار، وَيَشْوِيهِ فِي عَيْنِ الشَّمْسِ، وَأَنَّهُ كَانَ يَقُولُ لِنُوحٍ، وَهُوَ فِي السَّفِينَةِ: مَا هَذِهِ الْقُصَيْعَةُ الَّتِي لَكَ، وَيَسْتَهْزِئُ بِهِ، وَيَذْكُرُونَ أَنَّهُ كَانَ طُولُهُ ثَلَاثَةَ آلَافِ ذِرَاعٍ وَثَلَاثِمِائَةٍ وَثَلَاثَةٍ وَثَلَاثِينَ ذِرَاعًا وَثُلُثًا، إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الْهَذَيَانَاتِ الَّتِي لَوْلَا أَنَّهَا مُسَطَّرَةٌ فِي كَثِيرٍ مِنْ كُتُبِ التَّفَاسِيرِ، وَغَيْرِهَا مِنَ التَّوَارِيخِ، وَأَيَّامِ النَّاسِ، لَمَا تَعَرَّضْنَا لِحِكَايَتِهَا لِسَقَاطَتِهَا، وَرَكَاكَتِهَا، ثُمَّ إِنَّهَا مُخَالِفَةٌ لِلْمَعْقُولِ وَالْمَنْقُولِ. (البداية والنهاية: 1/266، 268)
علامہ ابن القیم نے بھی یہی قد نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ عوج بن عنق کے واقعے کے باطل ہونے پر شواہد صحیحہ قائم ہیں کہ اس طرح کے واقعات سے انبیائےکرام علیہم السلام کی شان کو کم کرنا مقصود ہوتا ہے.
وقال ابن القيم رحمه الله: ومن الأمور التي يعرف بها كون الحديث موضوعا: أَنْ يَكُونَ الْحَدِيثُ مِمَّا تَقُومُ الشَّوَاهِدُ الصَّحِيحَةُ عَلَى بِطْلانِهِ، كَحَدِيثِ عَوْجِ بْنِ عُنُقٍ الطَّوِيلِ الَّذِي قَصَدَ واضعه الطعن في أخبار الأنبياء، فإنهم يجترئون عَلَى هَذِهِ الأَخْبَارِ. (المنار المنيف، ص: 76-77).
اس کے متعلق امام طبرانی، ابوالشیخ اور ابن حبان نے اگرچہ اپنی کتابوں میں طویل روایات نقل کی ہیں لیکن حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ سب باطل اور جھوٹ ہیں.
وأخرج الطبراني وأبوالشيخ وابن حبان في كتاب «العظمة» فيه آثارًا. قال الحفاظ في أطولها المشتمل على غرائب من أحواله: إنه باطل كذب.
● عوج بن عنق کا سو(١٠٠)گز لمبا قد:
علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ عوج کا قد سو گز لمبا تھا اور موسی علیہ السلام نے اس کو قتل کیا…
اس قدر بات قابل قبول ہوسکتی ہے.
قال الحافظ السيوطي: والأقرب في خبر عوج بن عنق أنه كان من بقية عاد، وأنه كان له طول في الجملة مائة ذراع أو شبه ذلك، وأن موسى صلى الله على نبينا وعليه وسلم قتله بعصاه، هذا هو القدر الذي يحتمل قبوله.
● عوج بن عنق کا تیرہ(١٣)ہزار گز لمبا قد:
ابن منذر نے اپنی تفسیر میں عوج کا قد تیرہ ہزار گز نقل کیا ہے کہ وہ سورج کے برابر گھومتا پھرتا تھا لیکن پھر خود لکھتے ہیں کہ اس طرح کی بےاصل باتوں کو صحابہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے بھی انسان کو شرم آتی ہے.
وقد أخرج ابن المنذر في تفسيره بسنده عن ابن عمرو قال: طول عوج ثلاثة عشر ألف ذراع، وعوج رجل من قوم عاد يغدو مع الشمس ويروح معها. وقد أورد بعض المصنفين هذا في تأليفه ثم قال: وهذا مما يستحیي الشخص أن ينسبه إلى ابن عمرو لضعفه عنه.
● عوج کا تیس گز اونچا ٹخنہ:
حضرت موسی علیہ السلام کا قد دس گز اور عصا بھی دس گز لمبا اور چھلانگ بھی دس گز لگائی تو عوج بن عنق کے ٹخنے تک پہنچ سکے اور عوج مر کر دریائے نیل پر پل بن گیا.
حدثنا أبو كريب حدثنا ابن عطية حدثنا قيس عن أبي إسحاق عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال: كانت عصا موسى عشرة أذرع، ووثبته عشرة أذرع، وطوله عشرة أذرع، فوثب فأصاب كعب “عوج” فقتله، فكان جسرا لأهل النيل سنة.
ابن کثیر رحمه اللہ کا فیصلہ کن قول:
علامہ ابن کثیر رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ عوج بن عنق کے متعلق جتنا کچھ بیان کیا جاتا ہے یہ محض فضولیات اور بےاصل باتیں ہیں اور اس کا قصہ زنادقہ کا گھڑا ہوا ہے.
وتابعه على ذلك الحافظ عماد الدين بن كثير فقال في كتابه البداية والنهاية: قصة عوج بن عنق وجميع ما يحكون عنه هذيان لا أصل له وهو من مختلقات زنادقة أهل الكتاب.
خلاصہ کلام
اس طرح کے واقعات اگرچہ تفسیر اور تاریخ کی کتابوں میں موجود ہوتے ہیں لیکن عقلا ونقلا یہ تمام واقعات درست نہیں ہوتے، لہذا ایسے واقعات کو بیان کرنے یا کسی معتبر شخصیت کی طرف منسوب کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٤ جولائی ٢٠١٨
المدینة المنورة