عورت کیلئے استغفار
سوال: ایک روایت سنی ہے کہ فرمانبردار عورت کیلئے ہوا میں پرندے اور پانی میں مچھلیاں اور آسمان میں فرشتے استغفار کرتے ہیں…کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
یہ روایت اگرچہ کافی مشہور ہے لیکن یہ کسی بھی مستند (صحیح یا ضعیف) سند سے کہیں بھی منقول نہیں. روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ فرمانبردار عورت کیلئے ہوا میں پرندے، پانی میں مچھلیاں اور آسمان میں فرشتے استغفار کرتے ہیں اور چاند سورج بھی اس کیلئے استغفار کرتے ہیں جب تک وہ عورت شوہر کی رضامندی میں رہےگی.اور جو خاتون اپنے شوہر کی نافرمانی کرےگی تو اس پر اللہ تعالی، اسکے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوگی. جو عورت شوہر کو ناراض کردے تو وہ اللہ تعالی کی ناراضگی میں رہےگی جب تک کہ شوہر کو راضی نہ کردے. جو عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلتی ہے اس پر گھر واپس لوٹنے تک فرشتے لعنت بھیجتے رہتے ہیں.
يستغفر للمرأة المطيعة لزوجها الطير في الهواء، والحيتان في الماء، والملائكة في السماء، والشمس والقمر ما دامت في رضا زوجها، وأيما امرأة عصت زوجها فعليها لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، وأيما امرأة كلحت في وجه زوجها فهي في سخط الله إلى أن تضاحكه وتسترضيه، وأيما امرأة خرجت من دارها بغير إذن زوجها لعنتها الملائكة حتى ترجع.
اس روایت کے بارے میں تحقیق کرنے والے مستند اداروں کا یہی کہنا ہے کہ یہ روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.
فهذا ليس بحديث، ولا يجوز نسبته إلى النبي صلى الله عليه وسلم.. (دارالافتاء، اردن)
اس مضمون کے قریب کی روایات:
جو شخص اپنی بیوی کے برے اخلاق پر صبر کرےگا اللہ تعالی اس کو ایوب علیہ السلام والا اجر عطا فرمائیں گے اور جو عورت اپنے شوہر کے برے اخلاق پر صبر کرےگی اللہ تعالی اس کو فرعون کی بیوی آسیہ کا اجر عطا فرمائیں گے.
من صبر على سوء خلق امرأته أعطاه الله من الأجر مثل ما أعطى أيوب على بلائه، ومن صبرت على سوء خلق زوجها أعطاها الله مثل ثواب آسية امرأة فرعون. [هكذا أورده الغزالي في الإحياء (2-39)].
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
علامہ عراقی کہتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں.
وقال مخرجه العراقي: لم أقف له على أصل.
وأقره الزبيدي في “شرح الإحياء” (5-352) وذلك نحوه السبكي في الطبقات (4-154).
جس عورت سے اسکا شوہر راضی رہے اللہ تعالی اس سے راضی رہینگے اور اس کو بغیر حساب کے جنت میں داخل فرمائینگے اور جو عورت اس حال میں سوئے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو اللہ تعالی اس کو ایوب علیہ السلام کے صبر کا اجر عطا فرمائیں گے.
ورد نحوه عند ابن حبيبٍ الأنْدَلُسي في أدب النساء (ص294، ح:261) معلَّقا أن النَّبي صلَّى الله عليهِ وسلَّم قال: “أيما امرأةٍ رضي عنها زوجها رضي الله عنها وأدخلها الجنة بغير حسابٍ، وأيما امرأةٍ نامت وزوجها راضٍ عنها أعطاها الله من الثواب مثل ما أعطى أيوب عليه السلام على بلائه”.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت میں کو ابن حبیب اندلسی نے نقل کیا ہے جن کے بارے میں محدثین کے اقوال کافی سخت ہیں:
١. ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ اس کو روایات کے طرق کا پتہ ہی نہیں تھا اس لئے اس کے زمانے والے اس کی طرف جھوٹ کی نسبت کرتے تھے.
ذكر ابن عبدالبر أنه كان لا يفهم طرق الحديث، فكان أهل زمانه ينسبونه إلى الكذب، ولا يرضونه.
٢. ابن حزم کہتے تھے کہ یہ ثقہ نہیں تھے، اس کی روایات ناقابل اعتبار تھیں.
وكان ابن حزم يرى أنه ليس بثقة، وأن روايته ساقطة مطرحة.
٣. ابن سید الناس کہتے تھے کہ اس کو لوگوں نے ضعیف قرار دیا، بلکہ اس پر جھوٹ کی تہمت بھی لگی تھی.
وقال ابن سيد الناس أنه: «ضعّفه غير واحد، وبعضهم اتهمه بالكذب».
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور روایت اور اس کے قریب کی جو روایات ہیں یہ سب سند کے لحاظ سے درست نہیں، لہذا آپ علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٨ جولائی ٢٠١٨ المدینة المنورة