شیطان کو کنکری مارنے کی حکمت
سوال: ١. حضرت اسماعیل علیہ السلام کو کہاں ذبح کیا گیا تھا؟
٢. شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے متعلق جو واقعات بیان کئے جاتے ہیں انکی کیا حقیقت ہے؟ ان دو باتوں کی تحقیق مطلوب ہے
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ جن امور کے متعلق آپ علیہ السلام سے کوئی واضح روایت منقول نہ ہو تو ان امور میں اقوال کا اختلاف چلتا رہتا ہے اور وہاں کوئی قطعی بات کہنا مشکل ہوتا ہے.
● ذبیح کون ہے؟
اس کے متعلق بھی روایات واقوال موجود ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے کس بیٹے کو ذبح کیا تھا؟ اسماعیل کو یا اسحاق کو…(علیهما الصلاة والسلام)
☆ جمہور امت کا قول یہی ہے کہ ذبیح اسماعیل علیہ السلام ہی تھے.
جیسے تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ ایک شخص نے آپ علیہ السلام کو ابن ذبیحین (اے دو ذبیحوں کے بیٹے) کہا تو آپ علیہ السلام مسکرائے، کسی نے آپ سے دو ذبیحوں کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ جب عبدالمطلب نے زمزم کے کنویں کو کھدوانے کا فیصلہ کیا تو یہ نذر مانی کہ اگر یہ معاملہ آسان ہوگیا تو ایک بیٹے کو ذبح کرینگے تو جب قرعہ نکالا تو عبداللہ کے نام نکلا تو لوگوں نے منع کیا کہ بیٹے کو ذبح نہ کریں اور سو اونٹوں کا فدیہ دیں، تو ایک ذبیح وہ ہوگئے اور دوسرے اسماعیل علیہ السلام.
تفسير ابن كثير: عن الصنابحي قال: كنا عند معاوية بن أبي سفيان فذكروا الذبيح إسماعيل أو إسحاق، فقال على الخيبر سقطتم كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاءه رجل فقال: يارسول الله! عد عليَّ مما أفاء الله عليك يا ابن الذبيحين، فضحك عليه الصلاة والسلام فقيل له: وما الذبيحان؟ فقال: إن عبدالمطلب لما أمر بحفر بئر زمزم نذر لئن سهل الله عليه أمرها ليذبحنّ أحد ولده، قال فخرج السهم على عبدالله فمنعه أخواله، وقالوا: افد ابنك بمائةٍ من الإبل، ففداه بمائة من الإبل، والثاني إسماعيل.
● ذبح کا مقام:
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو کہاں ذبح کیا اس کے متعلق چونکہ واضح روایت موجود نہیں لہذا اس میں اقوال مختلف ہیں…
علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں چار اقوال ذکر کئے ہیں:
١. مکہ میں کسی جگہ ذبح کیا تھا.
٢. جمرات کے قریب قربانی کی جگہ پر.
٣. منی میں جبل ثبیر کے پاس.
٤. ملک شام میں بیت المقدس سے دو میل کے فاصلے پر.
وأما موضع الذبح فهو محل خلاف أيضاً، وقد نقل القرطبي فيه أربعة أقوال في تفسيره:
الأول: أنه بمكة في المقام.
والثاني: أنه في المنحر عند الجمار.
والثالث: أنه ذبحه عند جبل ثبير بمنى.
والرابع: أنه ذبح بالشام، على بعد ميلين من بيت المقدس.
ورجح القرطبي القول الأول ونسبه للأكثرين.
شیطان کو کنکری مارنے کی حکمت:
مستدرک حاکم اور ابن خزیمہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب ابراہیم علیہ السلام مناسک پر تشریف لائے تو سامنے شیطان آیا تو ابراہیم علیہ السلام نے اس کو جمرة عقبة کے پاس سات کنکریاں ماریں یہانتک کہ شیطان زمین میں دھنس گیا پھر دوسری جگہ سامنے آیا تو پھر سات کنکریاں ماریں پھر زمین میں دھنس گیا پھر تیسری جگہ سامنے آیا تو پھر سات کنکریاں ماریں یہانتک کہ شیطان زمین میں دھنس گیا، پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ تم لوگ شیطان کو مارتے ہو اور اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی ملت کی اتباع کرتے ہو.
وذكر هذه القصة الإمام الحاكم في المستدرك والإمام ابن خزيمة في صحيحه عن سيدنا ابن عباس رضي الله عنهما رفعه إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: “لما أتى إبراهيم خليل الله صلوات الله عليه وسلامه المناسك عرض له الشيطان عند جمرة العقبة، فرماه بسبع حصيات حتى ساخ في الأرض، ثم عرض له عند الجمرة الثانية، فرماه بسبع حصيات حتى ساخ في الأرض، ثم عرض له عند الجمرة الثالثة، فرماه بسبع حصيات حتى ساخ في الأرض”. قال ابن عباس رضي الله عنهما: الشيطان ترجمون، وملة أبيكم إبراهيم تتبعون
خلاصہ کلام
احکام الہیہ کی تکمیل میں آپ علیہ السلام کا طریقہ ہی قابل اتباع ہے اور اسی میں اللہ تعالی کی رضا کو تلاش کیا جاتا ہے اگرچہ اس حکم کی کوئی بھی حکمت ہمارے سامنے نہ ہو، حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا حکم بھی اللہ تعالی ہی کی طرف سے دیا گیا تھا البتہ اسکے مقام کی وضاحت کسی روایت میں موجود نہیں، لہذا اس پر کوئی قطعی بات کہنا مشکل ہے
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ