تین حج کی فضیلت
سوال: ایک روایت جو ہمیشہ سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ جو شخص تین حج کرتا ہے اللہ تعالی اس کے جسم کو جہنم کی آگ پر حرام فرمادیتے ہیں
اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے
الجواب باسمه تعالی
یہ روایت اگرچہ ہماری کتابوں میں ملتی ہے جس کا معنی یوں ہے:
جس نے ایک حج کیا اس نے اپنا فرض ادا کیا اور جس نے دو حج کئے اس نے اللہ تعالی کو قرض دے دیا اور جس نے تین حج کئے اللہ تعالی اس کے بال اور کھال کو جہنم کی آگ پر حرام کر دینگے.
من حج حجة أدى فرضه، ومن حج ثانية داين ربه، ومن حج ثلاث حجج حرَّم الله شعره وبشره على النار”.
یہ روایت کہیں پر بھی صحیح یا ضعیف سند سے منقول نہیں، اسی لئے جب مختلف دارالافتاء سے اس روایت کے بارے میں پوچھا گیا تو یہی جواب ملا کہ یہ روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں بلکہ من گھڑت ہے.
وهذا الحديث ليس بصحيح، وهو موضوع لا أصل له، والله أعلم.
شیعوں کی روایات:
البتہ شیعوں کی کتب میں تین حج کرنے کے مختلف فضائل مذکور ہیں:
جیسا کہ کتاب
من لا یحضرہ الفقیه
میں منقول ہے کہ امام صادق نے فرمایا:
١. جس نے ایک حج کیا اس نے اپنی گردن کو جہنم سے آزاد کیا اور جس نے دو حج کئے وہ موت تک خیر میں رہےگا اور جس نے مسلسل تین حج کئے اگرچہ وہ اس کے بعد حج کرے یا نہ کرے وہ ہمیشہ حج کرنے والوں میں ہی شمار ہوگا.
وقال الصادق عليه السلام: من حج حجة الاسلام فقد حل عقدة من النار من عنقه، ومن حج حجتين لم يزل في خير حتى يموت، ومن حج ثلاث حجج متوالية، ثم حج أو لم يحج فهو بمنزلة مدمن الحج.
٢. ایک اور روایت میں ہے کہ جو شخص تین حج کرےگا اس پر کبھی فاقہ نہیں آئےگا.
وروى “أن من حج ثلاث حجج لم يصبه فقر أبدا”.
٣. ایک اور روایت میں ہے کہ جس سواری پر تین حج کئے گئے اللہ تعالی اس سواری کو جنت کی سواری بنادینگے.
أيما بعير حج عليه ثلاث سنين جعل من نعم الجنة.
٤. ایک روایت میں ہے کہ جس مؤمن نے تین حج کئے اس نے اللہ تعالی سے خود کو قیمت کے بدلے خرید لیا، اب اس سے اسکے مال کا حساب ہی نہیں کیا جائےگا کہ حلال سے کمایا یا حرام سے.
وقال الرضا عليه السلام: “من حج بثلاثة من المؤمنين فقد اشترى نفسه من الله عزوجل بالثمن، ولم يسأله من أين اكتسب ماله من حلال أو حرام”
خلاصہ کلام
سوال میں پوچھی گئی روایت سند کے لحاظ سے بلکل بھی درست نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں. چونکہ یہ مضمون صحیح روایات سے ثابت نہیں لہذا اسکے بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٥ اگست ٢٠١٨
مکۃالمکرمہ