ایام حج کی کچھ دعائیں اوراعمال
سوال: ذی الحج کے پہلے عشرے کے متعلق کچھ اعمال اور دعائیں موصول ہوئی ہیں جن کے بارے میں تحقیق مطلوب ہے:
١. ایک دعا: حضرت آدم علیہ السلام نے طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھ کر یہ دعا مانگی تو اللہ تعالی نے دعا قبول فرمائی.
٢. چند اعمال:
١. ذوالحجہ کی یکم اور ٦ تاریخ کو چوتھے کلمے کی ایک تسبیح پڑھنی ہے.
فضیلت: تمام عابدوں میں عبادت کا ثواب ملےگا.
٢. ذوالحجہ کی ٢ اور ٧ تاریخ کو ان کلمات کی ایک تسبیح پڑھنی ہے:
“اشھد ان لا اله الا اللہ وحدہ لا شریك له الها واحدا صمدا فردا وترا لم یتخذ صاحبة ولا ولدا”.
فضیلت: اسکے پڑھنے والے کیلئے ہزار در ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور قیامت تک بڑھتی چلی جاتی ہیں.
٣. ذوالحجہ کی ٣ اور ٨ تاریخ کو ان کلمات کی ایک تسبیح پڑھنی ہے:
“اشھد ان لا اله الا اللہ وحدہ لا شریك له احدا صمدا لم یلد ولم یولد ولم یکن له کفوا احد”.
فضیلت: آسمان دنیا سے ستر ہزار فرشتے (دعا کیلئے) نازل ہونگے، پچیس لاکھ نیکیاں ملینگی اور دس ہزار درجے بلند ہونگے.
٤. ذوالحجہ کی ٤ اور ٩ تاریخ کو چوتھے کلمے کی ایک تسبیح پڑھنی ہے.
فضیلت: اسکا پڑھنے والا بدبخت نہیں ہوتا.
٥. ذوالحجہ کی ٥ اور ١٠ تاریخ کو ان کلمات کی ایک تسبیح پڑھنی ہے:
“حسبی اللہ وکفی، سمع اللہ لمن دعا، لیس وراء اللہ المنتھی، من اعتصم باللہ نجا، سبحان لم یزل کریما ولا یزال رحیما”.
فضیلت: حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میری دعا ہے اور مجھے اس کی فضیلت بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے.
٦. یوم عرفہ کا عمل: حج کے دن ظہر اور عصر کے درمیان ایک ہزار(١٠٠٠)مرتبہ سورت اخلاص پڑھ کر جو دعا مانگو وہ پوری ہوگی.
برائے مہربانی اس دعا اور ان اعمال اور انکے فضائل کی تحقیق فرما دیجئے
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور دعا کتب احادیث میں موجود ہے:
عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: “لَمَّا أَرَادَ اللهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَى آدَمَ طَافَ سَبْعًا بِالْبَيْتِ، وَالْبَيْتُ يَوْمَئِذٍ لَيْسَ بِمَبْنِيٍّ وَهُوَ رَبْوَةٌ حَمْرَاءُ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ، فَقَالَ:
“اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ سِرِّي وَعَلانِيَتِي فَاقْبَلْ مَعْذِرَتِي، وَتَعْلَمُ حَاجَتِي فَأَعْطِنِي سُؤْلِي، وَتَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ إِيمَانًا يُبَاشِرُ قَلْبِي، وَيَقِينًا صَادِقًا حَتَّى أَعْلَمَ أَنَّهُ لا يُصِيبُنِي إِلا مَا كَتَبْتَ وَرِضَاءً بِمَا قَسَّمْتَ لِي”.
فَأَوْحَى اللهُ إِلَيْهِ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَكَ، وَلَنْ يَأْتِيَ أَحَدٌ مِنْ ذُرِّيَتِكَ فَيَدْعُونِي بِمِثْلِ الَّذِي دَعَوْتَنِي إِلا غَفَرْتُ لَهُ وَكَشَفْتُ غُمُومَهُ وَهُمُومَهُ، وَنَزَعْتُ الْفَقْرَ مِنْ بَيْنِ عَيْنَيْهِ وَاتَّجَرْتُ لَهُ مِنْ وَرَاءِ كُلِّ تَاجِرٍ، وَجَاءَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ وَإِنْ كَانَ لا يُرِيدُهَا.
دعا کا ترجمہ: یااللہ! آپ میری ظاہری اور باطنی سب حالتوں سے واقف ہیں، میں عذر کرتا ہوں پس آپ میرے عذر کو قبول فرمالیں اور آپ میری حاجت کو جانتے ہیں پس وہ مجھے عطا فرمادیں اور جو کچھ میرے دل میں ہے وہ جانتے ہیں تو میرے قصور کو معاف فرمادیں.
یااللہ! مجھ کو ایسا ایمان عطا فرما جو میرے دل میں جم جائے اور ایسا سچا یقین عنایت فرما کہ میں اس بات کو جان لوں کہ مجھے تیرے لکھی ہوئی تکلیف کے علاوہ کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی، اور ایسی اچھی عادت عطا فرما کہ آپ کی دی ہوئی چیز پر خوش ہوجاؤں.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میرے والد نے اس روایت کو منکر قرار دیا.
فَسَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ. (العلل لابن ابی حاتم).
اس دعا کو منکر قرار دینے کی وجہ:
یہ دعا مختلف کتب میں مختلف صحابہ کرام سے منقول ہے:
هذا الحديث أخرجه الطبراني في الكبير.
– وابن عساكر في تاريخ دمشق من حديث بريدة بن الحصيب رضي الله عنه.
– وأخرجه الطبراني في الأوسط وابن عساكر في تاريخ دمشق من حديث عائشة رضي الله عنها.
– وأخرجه البزار من حديث ابن عمر رضي الله عنهما.
– وأخرجه الأزرقي في أخبار مكة عن عبدالله بن أبي سليمان.
تمام طرق میں موجود علتیں:
١. پہلی سند:
بریدہ رضی اللہ عنہ سے جو پہلی سند منقول ہے اس میں ایک راوی ہےسلیمان بن قسیم اس کے بارے میں محدثین کے اقوال کافی سخت ہیں:
١. امام احمد اور ابن معین کہتے ہیں کہ یہ بےحیثیت راوی ہے.
قال احمد وابن معین: لیس بشئ.
٢. امام ابوزرعہ کہتے ہیں کہ اس کی روایات ناقابل اعتبار ہیں.
قال ابوزرعة: واھی الحدیث.
٣. ابوداود کہتے ہیں کہ یہ ضعیف راوی ہے اور محدثین کی نظر میں کچھ نہیں.
قال ابوداود: هو ضعیف لیس عندھم بشئ.
٤. امام نسائی کہتے ہیں کہ اس کی روایات چھوڑ دی جائیں.
قال النسائی: متروك الحدیث.
٢. دوسری سند:
بریدہ رضی اللہ عنہ سے جو دوسری سند منقول ہے اس میں ایک راوی ہےحفص بن سلیمان یہ قراءت کے امام ہیں لیکن روایات میں کمزور ہیں.
١. امام ذہبی کہتے ہیں کہ قراءت کے باب میں امام اور روایات کے باب میں انتہائی کمزور.
وقال الذهبي ملخِّصًا أقوال الأئمة في “الكاشف”: ثبتٌ في القراءة، واهي الحديث.
٢. ابن حجر کہتے ہیں کہ باوجود قراءت کے امام ہونے کے متروک الحدیث ہے.
وقال ابن حجر في “التقريب”: متروك الحديث، مع إمامته في القراءة.
قال البخارى: تركوه.
قال مسلم: متروك.
وقال النسائى: ليس بثقة، ولا يكتب حديثه.
وقال عبدالرحمن بن أبى حاتم: سألت أبى عنه، فقال: لا يكتب حديثه، هو ضعيف الحديث، لا يصدق، متروك الحديث.
٣. تیسری سند:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سند میں ایک راوی نضر بن طاہر ہے
١. امام ابن عدی کہتے ہیں کہ یہ لوگوں کی روایات چوری کرتا تھا.
قال الامام ابن عدی: یسرق الحدیث.
٢. امام ذہبی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے سنا پھر مجھے ان کے بارے میں جھوٹ کا علم ہوگیا.
٤. چوتھی سند:
سیوطی رحمه اللہ نے یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے. اس سند میں ایک راوی ہے ہشام بن سلیمان اس کو اگرچہ مضطرب الحدیث کہا گیا لیکن اس کی روایت مقبول ہے، لیکن ان کے شیخ عبداللہ بن ابی سلیمان مجہول ہیں اور روایت معضل ہے (یعنی عبداللہ نے دو راویوں کو درمیان سے حذف کرکے اس روایت کو بیان کیا ہے).
خلاصہ تحقیق:
یہ دعا جن اسانید سے منقول ہے ان میں سے کوئی بھی سند علت سے خالی نہیں، اسی وجہ سے امام ابوحاتم نے اس دعا کی سند کو منکر قرار دیا ہے.
● ٢. چند اعمال:
ایسی کوئی فضیلت کسی بھی صحیح یا ضعیف روایت سے ثابت نہیں.
● ٣. یوم عرفہ کا عمل:
یہ عمل بھی کسی مستند کتاب میں موجود نہیں.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور تمام کلمات اور دعاؤں کے الفاظ نہ صرف یہ کہ درست ہیں بلکہ بہت اعلی معانی پر مشتمل ہیں. البتہ چونکہ یہ دعائیں اس موقعے پر اور ان فضائل کے ساتھ آپ علیہ السلام سے ثابت نہیں اسلئے انکے فضائل کو آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا درست نہیں.
لہذا ان دعاؤں کو ضرور پڑھنا چاہیئے مگر کسی خاص دن کا تعین کرنا یا خاص فضیلت کو بیان کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٣ ذوالحجة ١٤٣٩
١٤ اگست ٢٠١٨
مکۃالمکرمہ