شب عرفہ کی دعا
سوال :ایک دعا ہے جو شب عرفہ کی دعا کے نام سے مشہور ہے، جو شخص عرفہ کی رات میں اس کو ہزار بار پڑھےگا اس کی ہر دعا قبول ہوگی…اس دعا کا حکم کیا ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور دعا مشہور کتب میں موجود ہے:
بیهقی اور طبرانی میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص عرفہ کی رات میں یہ دعائیں ہزار مرتبہ پڑھےگا تو جو کچھ اللہ تعالی سے مانگےگا ضرور پائےگا جبکہ گناہ یا قطع رحمی کا سوال نہ کرے… دعا یہ ہے:
“سبحان الذی فی السماء عرشه، سبحان الذی فی الارض موطئه، سبحان الذی فی البحر سبیله، سبحان الذی فی النار سلطانه، سبحان الذی فی الجنة رحمته، سبحان الذی فی القبر قضائه، سبحان الذی فی الهواء روحه، سبحان الذی رفع السماء، سبحان الذی وضع الارض، سبحان الذی لا ملجاء ولا منجا منه الا اليه”.
ترجمہ: پاک ہے وہ جس کا عرش بلندی میں ہے، پاک ہے وہ جسکی حکومت زمین میں ہے، پاک ہے وہ کہ جس کا راستہ دریا میں ہے، پاک ہے وہ کہ نار میں اسکی سلطنت ہے، پاک ہے وہ کہ جنت میں اسکی رحمت ہے، پاک ہے وہ کہ قبر میں اسی کا حکم ہے، پاک ہے وہ کہ ہوا میں موجود روحیں اسی کی ملکیت میں ہیں، پاک ہے وہ کہ جس نے آسمان کو بلند کیا، پاک ہے وہ کہ جس نے زمین کو پست کیا، پاک ہے وہ کہ اس کے عذاب سے پناہ ونجات کی کوئی جگہ نہیں مگر اسی کی طرف.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کو جس نے بھی نقل کیا ہے اس کی سند میں ایک راوی
عزرة بن قیس ہے.
عزْرَة بن قيس اليحمدي يروي عَن ام الْفَيْض.
ان کے بارے میں محدثین کے اقوال:
١ . یحیی بن معین فرماتے ہیں کہ یہ ضعیف راوی ہے، ایک جگہ فرمایا کہ کچھ بھی نہیں ہے یعنی بےحیثیت راوی ہے.
قَالَ يحيى بن المعین: ضَعِيف.
– وَفِي لفظ: لَا شَيْء.
٢ . امام بخاری نے اس روایت کو منکر قرار دیا اور فرمایا کہ عزرہ کی روایت کا کوئی متابع موجود نہیں (یعنی باوجود ضعف کے یہ روایت صرف ان ہی سے منقول ہے(
قال الامام البخاری: حدیث منکر، عزرة بن قیس لا یتابع علی حدیثه.
٣ . ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ ام الفیض سے روایت نقل کرتا ہے، اس کی روایات قلیل ہیں اور یہ منکر الحدیث ہے، لہذا جب یہ اکیلے کسی روایت کو نقل کرے تو ہمیں اس سے روایت کرنا پسند نہیں.
قال ابن حبان: شيخ يروى عن أم الفيض؛ منكر الحديث على قلته؛ لا يعجبني الاحتجاج بحديثه اذا انفرد.
ابن جوزی نے اس روایت کو امام عقیلی کے حوالے سے “ضعفاء الکبیر” میں نقل کیا اور وضع کا حکم لگایا.
أخرجه ابن الجوزي عن طريق العقيلى فى ضعفاء الكبير (٤١٢/٣(
علامہ سیوطی نے “اللآلی المصنوعہ” میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ عزرہ بن قیس کی وجہ سے اس روایت کو موضوع کہنا مناسب نہیں لگتا جبکہ اس روایت کو طبرانی اور بیهقى نے نقل کیا ہے.
قلت: هذا لا يقتضي الوضع وقد أخرجه الطبراني والبیهقى فى فضائل الاوقات.
خلاصہ کلام
یہ دعا بھی الفاظ اور معانی کے اعتبار سے بہترین دعا ہے لیکن چونکہ سند کے لحاظ سے اس پر کافی سخت کلام ہے اسلئے اس کو آپ علیہ السلام کی ذات کی طرف منسوب کرنے سے احتراز کرنا لازم ہے.
لہذا کسی دن کا تعین کئے بغیر اپنی (روزمرہ کی) دعاؤں میں اس دعا کو ضرور شامل کرنا چاہیئے لیکن اس کے ساتھ کسی خاص وقت، تعداد یا فضیلت کو بیان کرنا درست نہیں
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٤ ذوالحجة ١٤٣٩
١٥ اگست ٢٠١٨
مکۃالمکرمہ