حضرت معاویہ اور شہزادہ
سوال :ایک واقعہ کسی سے سنا ہے اس کی تحقیق مطلوب ہے:
حضرت امیر معاویہؓ کی زندگی کا ایمان افروز واقعہ:
حضرت امیر معاویہؓ حضورؐ کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ ایک شہزادہ نے آکر کہا: یارسول اللّٰہؐ! میں عیسائیوں کا شہزادہ ہوں، غسان کی ریاست سے آیا ہوں، میرا باپ بادشاہ ہے. میں نے تورات اور انجیل میں اپنے راہبوں اور پادریوں سے سنا ہے کہ آپ آخرالزمان نبی ہیں، میں اسی علاقے میں آیا تھا تو میں زیارت کیلئے آگیا. جب وہ چلنے لگا تو کہا: یارسول اللّٰہؐ! اگر میں آپؐ کو کوئی ہدیہ دوں تو آپؐ قبول کرینگے؟ حضورؐ نے فرمایا: ضرور میں تیرا تحفہ قبول کرونگا. جب وہ رخصت ہونے لگا تو کہا کہ میرا سامان چھ میل کے فاصلے پر ایک جگہ پڑا ہے. آپؐ کسی خادم کو میرے ساتھ بھیج دیں جو ہدیہ لے آئے، حضورؐ کے خصوصی خدام میں حضرت انسؓ کا نام مشہور ہے یا حضرت زیدؓ کا نام مشہور ہے، لیکن اس وقت ان دونوں میں سے کوئی وہاں موجود نہیں تھا، حضرت معاویہؓ حضورؐ کی خدمت میں بیٹھے تھے، اس وقت ان کی عمر 24سال تھی. حضورؐ نے فرمایا: معاویہ! جاؤ اس عیسائی شہزادے کے ساتھ جاؤ اور جو چیز وہ تمہیں دے اسے لے آؤ. حضرت معاویہؓ اس شہزادے کے ساتھ چل پڑے. (یہ واقعہ کتاب “تطہیر الجنان” میں بڑی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے(.
حضرت معاویہؓ جب جانے لگے تو ان کا جوتا مسجد کے دوسری طرف پڑا تھا، چونکہ حضورؐ کا حکم تھا کہ چلو تو وہ بغیر جوتے کے ہی چل پڑے، جوتا بھی نہیں پہنا کہ حضورؐ کا حکم ہے اور یہ شہزادہ جارہا ہے میں اس کے ساتھ چلوں. اب شہزادہ مسجد سے باہر نکلا. حضرت معاویہؓ بھی نکلے، عرب کی گرمی، دھوپ، ریت، صحراء ہے، جب مدینہ سے باہر نکلے تو حضرت معاویہؓ کے پاؤں جلنے لگے، حضرت معاویہؓ نے اس شہزادے سے کہا کہ اپنا جوتا مجھے دے دو یا اپنی سواری پر مجھے سوار کرلو. تو اس شہزادے نے کہا کہ تو کمی ہے، تو نوکر ہے، تو غلام ہے. میں شہزادہ ہوں. میں کمیوں کو اپنا جوتا کیسے دے دوں؟
حضرت معاویہؓ تو مکہ کے سردار ابوسفیانؓ کے لڑکے تھے، لیکن آج تو حکم پیغمبرؐ کا تھا. حضرت معاویہؓ خاموش ہوگئے اور چھ میل تک اس گھوڑ سوار شہزادے کے ساتھ عرب کی دھوپ اور ریت میں امیر معاویہؓ بھاگتے رہے. چھ میل بعد اس کا پڑاؤ آیا. اس نے حضرت معاویہؓ کو سامان دیا. حضرت معاویہؓ سامان لے کر واپس آئے. حضورؐ نے پوچھا: معاویہؓ! تم کیسے گئے اور کیسے آئے؟ حضرت معاویہؓ نے سارا واقعہ بیان کیا. حضورؐ بڑے خوش ہوئے کہ بغیر جوتے کے دھوپ میں گیا. تجھے اس نے کمی کہا تو تم واپس کیوں نہیں آئے؟ حضرت معاویہؐ نے عرض کیا: یارسول اللّٰہؐ! حکم آپؐ کا تھا. میرے تو صرف پاؤں جلے، اگر میرا جسم بھی جل جاتا تو معاویہ واپس نہیں آتا. حضورؐ نے اس کے جواب میں فرمایا تھا: “احلم من امتی معاویة” میری امت کا سب سے بڑے حوصلے والا معاویہ بن ابی سفیان ہے.
اس واقعے کے وقت حضرت معاویہؓ کی عمر 24سال تھی. پورے 34سال گذر جانے کے بعد جب حضرت معاویہؓ دمشق کے تخت پر خلیفہ بنے اور ساری دنیا کے نصف حصّے سے زیادہ پر حضرت معاویہؓ کو حکومت ملی اور تن تنہا دنیا میں اتنا بڑا اسلامی حکمران بنا. حضرت معاویہؓ کی فوجیں ملک غسان کو فتح کرنے گئیں. تین مہینے بعد فوج واپس آئی تو مبارکباد پیش کی گئی اور سپہ سالار نے کہا کہ امیرالمؤمنین! غسان فتح ہوگیا اور ہم چھ ہزار قیدی قید کرکے لائے ہیں.
حضرت معاویہؓ کے دربار میں جب وہ چھ ہزار قیدی پیش کئے گئے تو ان کے ہاتھ اور پاؤں رسیوں سے بندھے ہوئے تھے. حضرت معاویہؓ نے ان قیدیوں کو دیکھا تو سب سے آگے جو قیدی تھا وہ وہی غسان کی ریاست کا شہزادہ تھا جس نے معاویہؓ کو پہننے کیلئے جوتا نہیں دیا تھا. حضرت معاویہؓ نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا اور فرمایا: شہزادے کو میرے مہمان خانے میں لے جاؤ. ایک مہینہ تک حضرت معاویہؓ اپنے مہمان خانے میں اس کی میزبانی کرتے رہے مگر اس نے نہیں پہچانا کہ یہ امیرالمؤمنین حضرت معاویہؓ وہی پیغمبرؐ کا غلام ہے جس کو میں نے کمی کہا تھا. ایک مہینے بعد جب وہ جانے لگا تو معاویہؓ نے فرمایا کہ میں نے تیری وجہ سے سارے قیدیوں کو رہا کردیا اور تجھے بھی رہا کیا، رخصت ہوتے ہوئے معاویہؓ نے اسے دس ہزار درہم ہدیہ کے طور پر دیئے، تو اس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ امیر معاویہؓ بن ابوسفیان ہے. رسول اللّٰہؐ کا غلام ہے. اب اس کے ذہن میں آیا کہ یہ تو وہی نوجوان ہے جس کو میں نے پہننے کیلئے جوتا نہیں دیا تھا. اور میں نے اس کو کہا تھا کہ تو “کمی” ہے. اب اس کی آنکھیں شرم سے جھک گئیں. حضرت معاویہؓ کے پاس آکر کہنے لگا: امیرالمؤمنین! آپ وہی معاویہؓ ہیں جو میرے ساتھ پیدل گئے تھے؟ حضرت معاویہؓ نے فرمایا: اے شہزادے! ہاں میں محمدؐ کا وہی کمی ہوں، میں محمدؐ کا وہی نوکر ہوں. اس نے کہا میں شرمندہ ہوں. حضرت معاویہؓ نے فرمایا کہ میں نے تجھے پہلی مرتبہ ہی پہچان لیا تھا اور سب کچھ میں نے پہچاننے کے باوجود کیا. تیرا اخلاق تو یہ تھا کہ تو نے مجھے جوتا بھی نہ دیا. شاید تیرے مذہب نے تجھے یہ اخلاق سکھایا ہو، جبکہ میرا اخلاق یہ تھا کہ میں نے تیرے اس سلوک کا تجھ سے تذکرہ بھی نہ کیا، اور باوجود پہچان لینے کے میں نے تیری رسیاں کھلوائیں، تیرے ہاتھ کھلوائے اور تجھے مہمان بنایا، پھر اس سب کے بعد تجھے دس ہزار درہم دیئے. وہ زاروقطار رونے لگا اور کہنے لگا: اے امیرالمؤمنین! میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار دیکھے مگر تیرے سے زیادہ کوئی حوصلے والا نہیں دیکھا، مجھے جلدی کلمہ پڑھا کر مسلمان کر دیجئے.
اسی بات کوحضورؐ نے فرمایا تھا… “احلم من امتی معاویة” یعنی میری امت کا سب سے بڑا حوصلے والا معاویہ بن ابی سفیان ہے. اس واقعے کی تحقیق مطلوب ہے
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعے کی اصل تو احادیث کی کتابوں میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے لیکن اس واقعے میں جس قدر زیادتی کی گئی ہے یہ کسی افسانہ گو مقرر یا مصنف کی گاریگری ہے جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں.
کتب میں موجود اصل واقعہ:
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سن ٩ہجری کو مسلمان ہوکر مدینہ حاضر ہوئے، چونکہ آپ کا تعلق بادشاہوں کے خاندان سے تھا اس لئے آپ علیہ السلام نے ان کی آمد کی خوشخبری صحابہ کو سنائی کہ تمہارے ہاں شہزادہ آرہا ہے، پھر جب یہ آئے تو انکا خوب استقبال کیا اور اکرام بھی کیا اور آپ کیلئے چادر بچھائی.
وفادة وائل بن حجر بن ربيعة بن وائل بن يعمر الحضرمي أبي هنيد، أحد ملوك اليمن، على رسول الله صلى الله عليه وسلم.
قال أبوعمر بن عبدالبر: كان أحد أقيال حضرموت، وكان أبوه من ملوكهم، ويقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بشر أصحابه قبل قدومه به وقال: يأتيكم بقية أبناء الملوك. فلما دخل رحب، به وأدناه من نفسه، وقرب مجلسه، وبسط له رداءه، وقال: اللهم بارك في وائل وولده وولد ولده. (ص:331) واستعمله على الأقيال من حضرموت، وكتب معه ثلاث كتب: منها كتاب إلى المهاجر بن أبي أمية وكتاب إلى الأقيال والعباهلة، وأقطعه أرضا، وأرسل معه معاوية بن أبي سفيان.
وائل بن حجر کی آمد سن ٩ہجری کو ہوئی تھی، اس سال کو “عام الوفود” بھی کہتے ہیں(یعنی جس سال کثرت سے وفود آئے تھے(.
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ: لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ وَفَرَغَ مِنْ تَبُوكَ وَأَسْلَمَتْ ثَقِيفٌ وَبَايَعَتْ، ضَرَبَتْ إِلَيْهِ وُفُودُ الْعَرَبِ مِنْ كُلِّ وَجْهٍ.
قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: حَدَّثَنِي أَبُوعُبَيْدَةَ أَنَّ ذَلِكَ فِي سَنَةِ تِسْعٍ وَأَنَّهَا كَانَتْ تُسَمَّى سَنَةَ الْوُفُود.
ثم ذكر وفود العرب إليه، ومن ذلك: وِفَادَةُ وَائِلِ بْنِ حُجْرِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ يَعْمَرَ الْحَضْرَمِيِّ أَبِي هُنَيْدٍ، أَحَدِ مُلُوكِ الْيَمَنِ، عَلَى رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (البداية والنهاية 7/231-330(
وقال العظيم آبادي رحمه الله: قُدُوم وَائِل بْن حُجْرٍ وَإِسْلَامه كَانَ فِي سنة تِسْع.
قَالَ الْحَافِظ صَلَاح الدِّين الْعَلَائِيّ فِي كِتَابه “تَحْقِيق مُنِيف الرُّتْبَة لِمَنْ ثَبَتَ لَهُ شَرِيف الصُّحْبَة”: وَائِل بْن حُجْرٍ وَمُعَاوِيَة بْن الْحَكَم السُّلَمِيُّ وَخَلْق كَثِير مِمَّنْ أَسْلَمَ سَنَة تِسْع وَبَعْدهَا، وَقَدِمَ عَلَى رَسُول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقَامَ عِنْده أَيَّامًا ثُمَّ رَجَعَ إِلَى قَوْمه، وَرَوَى عَنْهُ أَحَادِيث. (“عون المعبود” 13/238(.
]وانظر: “الاستيعاب” (4/1562)، “الطبقات الكبرى” (1/262[.(
وائل بن حجر اور معاویہ رضی اللہ عنہما کا اصل واقعہ:
حدیث کی معتبر کتب میں یہ واقعہ صرف اتنا منقول ہے کہ جب وائل بن حجر مسلمان ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ علیہ السلام نے ان کو ہدیہ میں ایک زمین عطا فرمائی اور حضرت معاویہ کو ان کے ساتھ روانہ کیا، حضرت معاویہ غریب آدمی تھے، ان کے پاس جوتا نہیں تھا. وائل بن حجر خود واقعہ بیان کرتے ہیں کہ معاویہ نے مجھ سے کہا کہ مجھے اپنے پیچھے سوار کر لیجئے، میں نے کہا کہ تو اس قابل نہیں کہ بادشاہوں کے ساتھ سوار ہو تو معاویہ نے مجھ سے کہا کہ مجھے اپنے جوتے ہی دے دیجئے تو میں نے کہا کہ اونٹنی کے سائے میں چلتے رہو، جب حضرت معاویہ خلیفہ بنے اور میں ان کے پاس آیا تو انہوں نے مجھے اپنے تخت پر بٹھایا اور مجھے ساری بات یاد دلائی تو میں نے کہا کہ کاش میں آپ کو اپنے آگے سوار کرتا.
حدثنا عبدالله حدثني أبى ثنا حجاج قال أنا شعبة عن سماك بن حرب عن علقمة بن وائل عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أقطعه أرضا، قال: فأرسل معي معاوية أن أعطها إياه، أو قال أعلمها إياه، قال: فقال لي معاوية: أردفني خلفك؛ فقلت: لا تكون من إرداف الملوك؛ قال فقال: أعطني نعلك؛ فقلت: انتعل ظل الناقة؛ قال: فلما استخلف معاوية أتيته فأقعدني معه على السرير فذكرني الحديث؛ فقال سماك: فقال: وددت اني كنت حملته بين يدي.
تعليق شعيب الأرنؤوط: إسناده حسن]. (مسند الإمام أحمد بن حنبل]
خلاصہ کلام
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ صحیح واقعہ اسی قدر تھوڑے بہت اضافے کے ساتھ صحیح کتب میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے لیکن اس قدر طویل مضمون اور گرفتاری اور رہائی کو ذکر کرنا محض جھوٹ اور من گھڑت ہے
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٧ ذوالحجة ١٤٣٩
١٨ اگست ٢٠١٨
مکۃالمکرمہ