بنو أمیّہ کے مکانات کا ڈبہ
سوال: ایک پوسٹ کثرت سے گردش کررہی ہے کہ بنوأمیّہ کے مکانات سے ایک ڈبہ ملا جس پر سونے کا تالا لگا ہوا تھا اور اس پر لکھا تھا “ہر بیماری کا علاج”، اس کی نسبت امام شافعی رحمه اللہ کی طرف کی جاتی ہے. برائے مہربانی اس کی تحقیق مطلوب ہے.
الجواب باسمه تعالی
یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جس کا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے، اگرچہ بعض کتب میں اس واقعے کو نقل کرنے والے دوسرے شخص ہیں لیکن إمام شافعی کی نسبت سے بھی یہ واقعہ منقول ہے.
وأخرج من طريق عبيدالله بن محمد بن حفص العيشي، سمعت أبي يقول: لما قبض ولد العباس خزائن بني أمية، وجدوا سفطا مختوما ففتحوه، فاذا فيه رقّ مكتوب عليه:
«شفاء باذن الله» ففتح فاذا هو: «بِسْمِ اللهِ وَبِاللهِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ اُسْكُن اَيُّهَا الْوَجْعُ سكنت بِالَّذِي يُمْسِكُ السَّمَاءَ اَنْ تَقَعَ عَلَى الْاَرْضِ اِلَّا بِإِذْنِه اِنَّ اللهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوْفٌ رَّحِيم، بِسْمِ اللهِ وَبِاللهِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ اُسْكُن اَيُّهَا الْوَجْعُ سكنت بِالَّذِي
سَكَنَ لَهُ مَا فِي اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ، بِسْمِ اللهِ وَبِاللهِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ اُسْكُن اَيُّهَا الْوَجْعُ سكنت بِالَّذِي إنْ يَّشَاْ يُسْكِنِ الرِّيَاحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلَى ظَهْرِهِ، إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْر، بِسْمِ اللهِ وَبِاللهِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ اُسْكُنْ اَيُّهَا الْوَجْعُ سكنت بِالَّذِي يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا وَلَئِنْ زَالَتَا اِنْ اَمْسَكَهُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْ بَعْدِهِ اِنَّهُ كَانَ حَلِيْمًا غَفُوْرًا».
اس واقعے کے راوی عبیداللہ کہتے ہیں کہ اس دعا کے ملنے کے بعد ہمیں کسی علاج اور دوا کی ضرورت باقی نہ رہی.
قال عبيدالله: قال أبي: فما احتجت بعده إلى علاج، ولا دواء.
اسی طرح عبیداللہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے بتایا کہ یہ بنوأمیّہ کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سامان سے ملا تھا.
وقال لنا أبي: إن بني أمية أصابوه في ثقل الحسين رضی اللہ عنه. (تاریخ بغداد)
یہی واقعہ امام شافعی رحمه اللہ کی طرف بھی منسوب کیا جاتا ہے.
روى الامام الشافعي رحمه الله انه قال: وجد في بعض دور بني أمية درج من فضة وعليه قفل من ذهب مكتوب على ظهره شفاء من كل داء وفي داخله مكتوب هذه الكلمات:
“بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ وَبِاللهِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ اُسْكُن اَيُّهَا الْوَجْعُ سكنتك بِالَّذِي يُمْسِكُ السَّمَاءَ اَنْ تَقَعَ عَلَى الْاَرْضِ اِلَّا بِإِذْنِه اِنَّ اللهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوْفٌ رَّحِيم. بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ وَبِاللهِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ اُسْكُنْ اَيُّهَا الْوَجْعُ سكنتك بِالَّذِي يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا وَلَئِنْ زَالَتَا اِنْ اَمْسَكَهُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْ بَعْدِهِ اِنَّهُ كَانَ حَلِيْمًا غَفُوْرًا”.
قال الامام الشافعي رحمه اللہ: فما احتجت معه الى طبيب قط بإذن الله تعالى فإنه هو الشافي.
اسی طرح ایک اور واقعہ کتب تاریخ میں ملتا ہے کہ بنوأمیّہ کے خزانوں میں ایک خَود (لوہے کی ٹوپی، جبکہ بعض نے ڈھال لکھا ہے) موجود تھا کہ جو شخص اس کو سر پر رکھ لیتا اس کے سر کا درد فورا ختم ہوجاتا، جب اس کو کھولا گیا تو اس میں ایک دعا لکھی تھی.
وجد في ذخائر بني امية ترس مربع من ذهب وعليه ازرار من الزمرد الأخضر مملوء بالمسك والكافور والعنبر
الخام وكان من جعله على رأسه ازال عنه الصداع البتة في الوقت والساعة ففتقوا الترس فوجدوا في باطن ازراره بطاقة مكتوب فيها:
بسم الله الرحمن الرحيم {ذَلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَة}
بسم الله الرحمن الرحيم {يُرِيْدُ اللهُ اَن يُّخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا}
بسم الله الرحمن الرحيم {وَاِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ}
بسم الله الرحمن الرحيم {اَلَمْ تَرَ إلَى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا}
بسم الله الرحمن الرحيم {وَلَهُ مَا سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْم}.
خلاصہ کلام
دعا کے معاملے میں الفاظ کا درست ہونا کافی ہوتا ہے بشرطیکہ اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف نہ کی جائے، لہذا اس دعا کو پڑھنا یا مجربات کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ