ایک عجیب توبہ
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس واقعہ کے بارے میں جو اکثر لوگ بیان کرتے ہیں کہ:
حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے دور میں ایک دفعہ بارش کی دعا کی تو اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے فرمایا کہ تمہارے درمیان ایک گناہگار شخص ہے جس کی وجہ سے بارش نہیں ہورہی. موسی علیہ السلام نے قوم سے فرمایا کہ ایک گناہگار کی وجہ سے اللہ رب العزت بارش نہیں برسا رہے. وہ گناہگار ہم میں سے نکل جائے. ابھی وہ گناہگار نکلا نہیں تھا کہ بارش ہوگئی. موسی علیہ السلام نے اللہ سے عرض کیا کہ وہ گناہگار تو ابھی نکلا نہیں پھر بھی بارش ہوگئی. اللہ رب العزت نے فرمایا کہ اس نے مجھ سے توبہ کرلی اس لئے میں نے بارش برسا دی. تو موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے پوچھا کہ وہ کون شخص ہے؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ جب وہ گناہگار تھا تب ہم نے اس کا پردہ رکھا تو اب جبکہ اس نے توبہ کرلی اب کیسے اس کا بتادیں…
برائے مہربانی اس واقعہ کی اگر کوئی سند ہو تو بیان فرمادیں…
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ اسرائیلیات کے نام سے مختلف کتب اور تفاسیر میں مختلف مضمون کے ساتھ منقول ہے۔
ابن قدامہ نے یہ واقعہ اپنی کتاب توابین میں نقل کیا ہے، اس کے آخر میں ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ جب وہ نافرمان تھا تب ہم نے اس کا پردہ فاش نہیں کیا تو اب جبکہ وہ فرمانبردار ہوگیا تو کیسے اس کا پردہ فاش کردیں.
ذكر ابن قدامة في التوابين: أن بني إسرائيل لحقهم قحط على عهد موسى عليه السلام فاجتمع الناس إليه فقالوا: يا كليم الله! ادع لنا ربك أن يسقينا الغيث. فقام معهم وخرجوا إلى الصحراء وهم سبعون ألفاً أو يزيدون؛ فقال موسى عليه السلام: إلهي! اسقنا غيثك وانشر علينا رحمتك وارحمنا بالأطفال الرضع والبهائم الرتع والمشايخ الركع فما زادت السماء إلا تقشعاً والشمس إلا حرارة. فقال موسى: إلهي اسقنا. فقال الله: كيف أسقيكم؟ وفيكم عبد يبارزني بالمعاصي منذ أربعين سنة فناد في الناس حتى يخرج من بين أظهركم فبه منعتكم.
فصاح موسى في قومه: ياأيها العبد العاصي الذي يبارز الله منذ أربعين سنة اخرج من بين أظهرنا فبك منعنا المطر. فنظر العبد العاصي ذات اليمين وذات الشمال فلم ير أحداً خرج فعلم أنه المطلوب. فقال في نفسه: إن أنا خرجت من بين هذا الخلق افتضحت على رؤوس بني اسرائيل وإن قعدت معهم منعوا لأجلي فانكسرت نفسه ودمعت عينه فأدخل رأسه في ثيابه نادماً على فعاله وقال: إلهي وسيدي! عصيتك أربعين سنة وأمهلتني وقد أتيتك طائعاً فاقبلني وأخذ يبتهل إلى خالقه فلم يستتم الكلام حتى ارتفعت سحابة بيضاء فأمطرت كأفواه القرب. فعجب موسى؛ وقال: إلهي! سقيتنا وما خرج من بين أظهرنا أحد. فقال الله: ياموسى! سقيتكم بالذي به منعتكم. فقال موسى: إلهي! أرني هذا العبد الطائع. فقال: ياموسى! إني لم أفضحه وهو يعصيني، أأفضحه وهو يطيعني.
اس واقعے کو امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں کعب أحبار سے نقل کیا اور اس کے آخر میں ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں نے تم کو چغلی سے منع کیا تو خود کیسے اس کی چغلی کروں.
هذا الأثر أورده القرطبي في تفسيره(20/239) ولفظه: وقال كعب الأحبار: أصاب بني إسرائيل قحطٌ فخرج بهم موسى عليه السلام ثلاث مرات يستسقون فلم يسقوا، فقال موسى: إلهي عبادك. فأوحى الله إليه: إني لا أستجيب لك ولا لمن معك لأن فيهم رجلا نماما، قد أصر على النميمة. فقال موسى: يا رب! من هو حتى نخرجه من بيننا، فقال: ياموسى! أنهاك عن النميمة وأكون نماما؟ قال: فتابوا بأجمعهم، فسقوا.
اس مضمون کو طرطوشی، ابن حجر الہیتمی اور بیجرمی نے بغیر کسی کے حوالے کے “قیل” کے ساتھ نقل کیا ہے.
وأورده أبوبكر الطرطوشي في سراج الملوك(ص/129)، والهيتمي المكي في الزواجر عن اقتراف الكبائر(2/571).
وفي حاشية البيجرمي على الخطيب(2/117) نقلاً عن البرماوي: وَقَدْ قِيلَ: إنَّ مُوسَى عَلَيْهِ الصَّلَاةُ…..
اسرائیلیات کا حکم:
اس واقعے کو اسرائیلیات میں شمار کیا گیا ہے اور اسرائیلیات تین طرح کی ہوتی ہیں:
١. پہلی قسم:
آپ علیہ السلام نے گذشتہ زمانے کی کسی بات کی خبر دی ہو اور وہ روایت صحیح سند سے ہم تک پہنچی ہو تو اس کو صحیح کہا جائےگا.
أحدها: ما علمنا صحته مما بأيدينا مما يشهد له بالصدق فذاك صحيح.
٢. دوسری قسم:
ایسی کوئی روایت کہ اس کا جھوٹا ہونا روایات سے یا عقل سے معلوم ہوجائے کہ یا وہ ہماری شریعت کے مخالف ہو یا عقل اسکو تسلیم ہی نہ کرے جیسے: عوج بن عنق کی روایات.
والثاني: ما علمنا كذبه بما عندنا مما يخالفه.
والضابط في القبول والردِّ في هذا هو الشرع، فما كان موافقًا قُبِلَ، وما كان مخالفًا لم يُقبَل.
٣. تیسری قسم:
وہ روایات اور واقعات جو شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ٹکراتے ہوں اور نہ ہی بعید از قیاس ہوں تو ایسے واقعات کے بارے میں اصول یہ ہے کہ (لا نصدق ولا نکذب) یعنی نہ تو انکو سچا کہا جائے نہ ہی جھٹلایا جائےگا، البتہ اسی کو مدار بنانا اور ہر وقت یہی اسرائیلیات بیان کرنا محبوب و مطلوب نہیں.
الثالث: ما هو مسكوت عنه لا من هذا القبيل ولا من هذا القبيل، فلا نؤمن به ولا نكذبه.
☆ ويلاحظ في هذا القسم أنه تجوز حكايته، وعلى هذا عمل السلف في التفسير وغيره، ولم يقع النكير على هذا بينهم إلا بسبب الإكثار من الرجوع إليهم.
حضرات صحابہ کرام کا اسرائیلیات نقل کرنا:
صحابہ کرام رضوان اللہ عليهم أجمعین نے اسرائیلیات کو نقل ضرور کیا ہے لیکن اس کا مطلب اس کی تصدیق یا تصحیح نہیں ہے بلکہ قرآن مجید کے کسی مجمل قصے کی تفصیل بیان کرنی مقصود تھی اور اسکے قبول اور رد کرنے کے وہی أصول ہونگے جو کسی بھی روایت کے بارے میں ہوتے ہیں.
ومن الأمور التي يحسن التنبه لها أنَّ رواية السلف للإسرائيلية (خصوصًا الصحابة) لا يعني قبول ما فيها من التفاصيل، ومرادهم بها بيان مجمل ما ورد في القرآن بمجل ما ذُكِرَ في القصة، دون أن يلزم ذكرهم لها إيمانهم بهذه التفاصيل التي تحتاج في نقلها إلى سند صحيح.
واقعے کے رد کی وجوہات:
اس واقعے کو رد کرنے والے حضرات کی رائے کی چند وجوہات ہیں:
١. پہلی وجہ:
اس واقعے کو کعب أحبار کی طرف منسوب کیا جاتا ہے لیکن اس واقعے کی سند کعب أحبار تک بھی موجود نہیں، لہذا بےسند اس واقعے کی نسبت درست نہیں.
٢. دوسری وجہ:
اللہ رب العزت کا کسی بندے کے بارے میں اپنے نبی کو بتانا چغلی اور نمیمے کے زمرے میں کیسے آسکتا ہے (کہ چغلی کا مطلب کسی کی بات دوسرے تک فساد کی غرض سے پہنچانا) جبکہ اللہ رب العزت کی ذات اپنے بندوں کیلئے سراسر خیر چاہنے والی ذات ہے اور اسی طرح یہ تأثر ملنا کہ اگر اللہ تعالی موسی علیہ السلام کو اس شخص کا نام بتاتے تو وہ لوگوں کے سامنے اس شخص کو رسوا کردیتے (نعوذ باللہ) یہ دونوں باتیں اللہ تعالی اور اس کے نبی کے بارے میں درست نہیں، لہذا اس واقعے کو درست ماننا ممکن نہیں۔
خلاصہ کلام
یہ واقعہ کتب تفاسیر میں بغیر سند کے منقول ہے اور اس کو قبول کرنے نہ کرنے میں علمائے أمت کے اقوال بھی مختلف ہیں، لیکن ہماری ذاتی رائے اس واقعے کے صحیح نہ ہونے کی ہے کیونکہ نہ تو اسکی سند ہے اور نہ ہی متن اس کی صحت پر دلالت کرتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ