عزرائیل علیہ السلام کا اجازت طلب کرنا
سوال: ایک روایت بہت جگہ سنی ہے کہ آپ علیہ السلام کے انتقال کے وقت جبریل علیہ السلام نے عزرائیل علیہ السلام کیلئے آپ علیہ السلام سے اجازت چاہی اور پھر عزرائیل نے آپ سے روح قبض کرنے کی اجازت چاہی…
اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے۔ (سائل: حافظ دلاور کوہاٹ)
الجواب باسمه تعالی
یہ واقعہ مختلف کتابوں میں مختلف سندوں کے ساتھ مختلف مضامین سے منقول ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی سند کے لحاظ سے درست نہیں.
اس واقعے کا ایک مضمون جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے منقول ہے.
دخل الملك جبريل على النبي صلى الله عليه وسلم وقال: ملك الموت بالباب، ويستأذن أن يدخل عليك، وما استأذن من أحد قبلك، فقال له: ائذن له ياجبريل. ودخل ملك الموت وقال: السلام عليك يارسول الله! أرسلني الله أخيرك بين البقاء في الدنيا وبين أن تلحق بالله، فقال النبي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بل الرفيق الأعلى، بل الرفيق الأعلى. فوقف ملك الموت عند رأس النبي صلى الله عليه وسلم (كما سيقف عند رأس كل واحد منا) وقال: أيتها الروح الطيبة! روح محمد بن عبدالله، اخرجي إلى رضى من الله ورضوان ورب راضٍ غير غضبان. [رواها الطبراني في المعجم الكبير (3/129) وفي كتاب الدعاء(1/367)].
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
١. علامہ ہیثمی فرماتے ہیں کہ اس سند میں عبداللہ بن میمون القداح ہے جس کی روایات کسی قابل نہیں.
قال الهيثمي في مجمع الزوائد (9/35): فيه عبدالله بن ميمون القداح، وهو ذاهب الحديث.
٢. ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث اور متروک راوی ہے۔
ابن حجر فيه على أنه منكر الحديث، متروك، من الثامنة.
٣. امام بخاری اور ابوزرعہ کہتے ہیں کہ یہ انتہائی کیا گذرا راوی ہے۔
البخاري وأبازرعة قالا: ذاهب الحديث، وواهي الحديث.
٤. ابوحاتم کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے۔
وقال أبوحاتم: متروك.
٥. ابن حبان کہتے ہیں کہ اس کی روایات ناقابل اعتبار ہیں.
وقال ابن حبان: لا يجوز أن يحتج بما انفرد به ونقل عنه روايات.
٦. حافظ عراقی اور ابن کثیر نے بھی اس کو ناقابل اعتبار راوی قرار دیا ہے.
وكذلك حكم عليه الحافظ العراقي في تخريج الإحياء (4/560) والحافظ ابن حجر في “أجوبة بعض تلامذته” (1/87) وابن كثير في البداية والنهاية (5/290).
اس واقعے کی دوسری سند:
وحديث يرويه ابن عباس رضي الله عنهما، وفيه ذكر استئذان ملك الموت على النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي قبض فيه. [رواه الطبراني في المعجم الكبير (12/141)].
یہ روایت حضرت عبداللہ بن عباس رضي الله عنهما سے منقول ہے، اس سند میں مختار بن نافع ایک راوی ہے جس پر محدثین کا کلام کافی سخت ہے:
١. علامہ عراقی کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث راوی ہے.
وقال العراقي في تخريج الإحياء (4/560): وفيه المختار بن نافع منكر الحديث.
٢. امام نسائی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ راوی نہیں.
قال النسائي وغيره: والمختار بن نافع ليس بثقة.
٣. امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے.
وقال البخاري: منكر الحديث.
٤. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ انتہائی منکر روایات نقل کرتا ہے.
وقال ابن حبان: منكر الحديث جدا.
٥. امام حاکم نے مختار کی ایک روایت کو صحیح کہا تو امام ذہبی نے فرمایا کہ مختار تو ساقط الاعتبار راوی ہے.
فتعقبه الذهبي في الموضع الآخر، فقال: كذا قال، ومختار ساقط.
اس واقعے کی تیسری سند:
اس روایت میں ہے کہ عزرائیل نے اجازت چاہی اور آپ علیہ السلام کے انتقال کے بعد گھر کے کونے سے تعزیت کی گئی تو حضرت علی نے فرمایا کہ یہ خضر علیہ السلام ہیں۔
من ناحية البيت يعزيهم بعد وفاة النبي صلى الله عليه وسلم، وقول علي رضي الله عنه إنه الخضر.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
طبرانی کی روایت میں عبداللہ بن میمون القداح ہے جو انتہائی ضعیف راوی ہے.
ضعيف جدا، فقط رواه الطبراني في المعجم الكبير وفي إسناده عبدالله ابن ميمون القداح.
قال فيه ابن حجر: منكر الحديث متروك.
مستدرک حاکم کی روایت میں ابوولید المخزومی ہے.
١. اس کے بارے میں ابن عدی كہتے ہیں کہ یہ من گھڑت روایات نقل کرتا ہے.
ورواه الحاكم وفي إسناده: أبوالوليد المخزومي، قال ابن عدي: كان يضع الحديث على الثقات.
٢. ابن حبان کہتے ہیں کہ اس کی روایات قابل حجت نہیں.
وقال ابن حبان: لا يجوز الاحتجاج.
٣. امام دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے.
وقال الدارقطني: متروك.
٤. أبونعیم الاصبہانی کہتے ہیں کہ یہ منکر روایات نقل کرتا ہے.
وقال أبونعيم الأصبهاني: روى عن عُبَيدالله بن عمر مناكير.
اس واقعے کی چوتھی سند:
مجمع الزوائد میں یہ ایک طویل روایت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس کے بارے میں علامہ ہیثمی کہتے ہیں کہ اس میں ایک راوی عبدالمنعم بن ادریس کذاب ہے.
– الراوی: جابر بن عبدالله.
– المحدث: الهيثمي.
– المصدر: مجمع الزوائد.
– الصفحة أو الرقم: 9/29.
– خلاصة حكم المحدث: فيه عبدالمنعم بن إدريس وهو كذاب وضاع.
عبدالمُنعِم بن إدريس.
انکے بارے میں محدثین کے اقوال:
١. إمام أحمد ابن حنبل کہتے ہیں کہ یہ وہب بن منبہ کی طرف جھوٹ منسوب کرتا تھا.
أحمد بن حنبل فقال: كان يكذب على وهب بن منبه.
٢. امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ ناقابل اعتبار راوی ہے.
وقال البخاري: ذاهب الحدیث.
٣. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ اپنے باپ کی طرف جھوٹی روایات منسوب کرتا تھا۔
قال ابن حبان: يضع الحديث على أبيه وعلى غيره.
٤. ابن معین کہتے ہیں کہ یہ خبیث جھوٹا ہے۔
وقال عبدالخالق بن منصور عن ابن مَعِين: الكذاب الخبيث۔
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور واقعہ جس قدر سندوں سے وارد ہے وہ تمام اسانید اس قدر ضعیف اور ناقابل اعتبار ہیں کہ اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں، لہذا اس واقعے کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ