تنبیہ نمبر143

حضرت علی نے گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان کاٹ دی

سوال: مندرجہ ذیل واقعے کی تحقیق مطلوب ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدنی دور میں (جب وہ مدینہ ہجرت کرچکے تھے،  تب) کسی گستاخ شاعر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف گستاخانہ اشعار لکھے۔ صحابہ نے اس گستاخ شاعر کو پکڑ کر بوری میں بند کر کے حضور کے سامنے پھینک دیا. سرکار دوعالم نے حکم دیا کہ اس کی زبان کاٹ دو، تاریخ لرز گئی کہ مکہ میں جو پتھر مارنے والوں کو معاف کرتا تھا، کوڑا کرکٹ پھینکنے والی کی تیمارداری کرتا تھا، اسے مدینے میں آکے آخر ہو کیا گیا۔ بعض صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں اس کی زبان کاٹنے کی سعادت حاصل کروں؟ حضور نے فرمایا: نہیں، تم نہیں. تب رسولِ خدا نے حضرت علی کو حکم دیا کہ اس کی زبان کاٹ دو. مولا علی بوری اٹھا کر شہر سے باہر نکلے اور حضرت قنبر کو حکم دیا: جا میرا اونٹ لے کر آ، اونٹ آیا مولا نے اونٹ کے پیروں سے رسی کھول دی اور شاعر کو بھی کھولا اور دو ہزار(٢٠٠٠)  درہم اس کے ہاتھ میں دیئے اور اس کو اونٹ پہ بٹھایا،  پھر فرمایا:  تم بھاگ جاؤ ان کو میں دیکھ لونگا…
اب جو لوگ تماشا دیکھنے آئے تھے وہ بھی حیران رہ گئے کہ یا اللہ، حضرت علی نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی، رسول خدا کے پاس شکایت لے کر پہنچ گئے: یارسول اللہ! آپ نے کہا تھا کہ زبان کاٹ دو، علی نے اس گستاخ شاعر کو دو ہزار(٢٠٠٠) درہم دیئے اور آزاد کردیا، حضور مسکرائے اور فرمایا کہ علی میری بات سمجھ گئے… افسوس ہے کہ تمہاری سمجھ میں نہیں آئی، وہ لوگ پریشان ہو کر یہ کہتے ہوئے چل دیئے کہ: یہی تو کہا تھا کہ زبان کاٹ دو، علی نے تو کاٹی ہی نہیں…
اگلے دن صبح،  فجر کی نماز کو جب گئے تو دیکھا کہ وہ شاعر وضو کررہا ہے،  پھر وہ مسجد میں جا کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں چومنے لگتا ہے. جیب سے ایک پرچہ نکال کر کہتا ہے: حضور آپ کی شان میں نعت لکھ کر لایا ہوں…
اور یوں ہوا کہ حضرت علی نے گستاخ رسول کی گستاخ زبان کو کاٹ کر اسے مدحتِ رسالت والی زبان میں تبدیل کردیا. (حوالہ: دعائم الاسلام، جلد:2، صفحہ: 323) کیا اس واقعے کی اصل حقیقت اسی طرح ہے؟
الجواب باسمه تعالی

ہماری تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ مؤرخین حضرات واقعات کو اپنا مذہبی لبادہ اوڑھانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے اصل واقعہ کچھ کا کچھ بن جاتا ہے، پھر رہی سہی کسر کو مقررین اور خطباء پوری کرکے اس واقعے کی اصل شکل کو مسخ ہی کردیتے ہیں.

سوال میں مذکور واقعہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔

تاریخ کی کتابوں میں موجود اصل واقعہ:

صحیح مسلم شریف میں اس واقعے کا ابتدائی حصہ منقول ہے جبکہ بقیہ حصہ تاریخ کی کتب میں منقول ہے .

غزوہ حنین کے موقعے پر آپ علیہ السلام نے نومسلم صحابہ (جن کو مؤلفة القلوب کہا گیا) کو غنیمت میں سے کافی زیادہ زیادہ مال دیا جیسے حارث بن ھشام، سہیل بن عمرو، أبوسفیان، عیینہ بن حصن وغیرہ کو سو سو اونٹ دیئے، جبکہ کچھ صحابہ کو کم مال دیا، انہیں میں سے ایک صحابی عباس بن مرداس کو بھی کم اونٹ ملے تو انہوں نے شکوے کو اشعار کی شکل میں عرض کیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ آج جن لوگوں کو ہم پر فوقیت دی گئی یہ لوگ کسی طرح بھی ہم سے بہتر اور اعلی نہیں.   

صحیح مسلم کی روایت:
أخرج الإِمام مسلم -رحمه الله- في صحيحه عن رافع بن خديج – رضي الله عنه – في تقسيم غنائم يوم حنين – قال: أعطى رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أبا سفيان بن حرب وصفوان بن أمية وعيينة بن حصن والأقرع بن حابس كل إنسان منهم مائة من الإبل وأعطى عباس بن مرداس دون ذلك فقال عباس بن مرداس:
أتجعل نَهْبي ونهب العُبَيْد … بين عُيينة والأقرع
فما كان بدر ولا حابس … يفوقان مرداس في المجمع
وماكنت دون أمرى منهما … ومن تخفض اليوم لايُرفع
فْأتمّ له رسول الله – صلى الله عليه وسلم – مئة
تاریخ طبری کی روایت:

جب آپ علیہ السلام کے سامنے ان اشعار کا تذکرہ آیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی اس کو لے جاکر اس کی زبان بندی کردے. تو صحابہ کرام نے عباس کو کچھ مال دے کر راضی کرلیا.

قال ابن هشام: وأعطى عباس بن مرداس أباعر، فسخطها فعاتب فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال عباس بن مرداس يعاتب رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏
اتجعل نھبی ونھب العبید الخ
قال ابن إسحاق: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏ اذهبوا به فاقطعوا عني لسانه، فأعطوه حتى رضي. فكان ذلك قطع لسانه الذي أمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم. (تاريخ الطبري)
اس واقعے کی طرح کا دوسرا واقعہ:
تهذيب الآثار وتفصيل الثابت عن رسول الله من الأخبار

میں دو واقعے مذکور ہیں:

١. پہلا واقعہ:

ایک شاعر آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ علیہ السلام نے حضرت بلال سے فرمایا اس کی زبان کاٹ دو تو بلال رضی اللہ عنہ نے اس کو چالیس درہم اور ایک جوڑا دیا تو اس نے کہا: خدا کی قسم آپ نے میری زبان کاٹ دی آپ نے میری زبان کاٹ دی.

أتى الشاعر النبي عليه السلام فقال: يا بلال! اقطع عني لسانه فأعطاه أربعين درهما وحلة، فقال: والله قطعت لساني؛ قطعت والله لساني.
٢.  دوسرا واقعہ:

ایک شاعر آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کی تعریف کی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا اے بلال! اس کی زبان کاٹ دے تو وہ دیہاتی سمجھا کہ مجھے سزا ہوگئی، وہ بھاگ دوڑا اور بلال رضی اللہ عنہ اس کو آواز دیتے رہے کہ آپ کیلئے انعام کا اعلان ہوا ہے لیکن وہ بھاگ گیا.

 جاء شاعر إلى النبي عليه السلام يمدحه فقال: اقطع لسانه فظن الأعرابي أنه قد أمر بقطع لسانه فقام يعدو فجعل يسعى خلفه ويقول: أمرني رسول الله بخير قال: فمضى أعرابي وتركه.
اس واقعے میں کیا جانے والا سب سے پہلا اضافہ:

اس واقعہ کو مذہبی رنگ اور فضائل علی میں شمار کرنے والی شخصیت ایک اسماعیلی شیعہ عالم قاضی أبوحنیفہ نعمان بن محمد ہے جنہوں نے یہ واقعہ اپنی کتاب

“دعائم الإسلام وذكر الحلال والحرام والقضايا والأحكام”

میں ذکر کیا ہے اور ان سے یہ روایت

الصحيح من سيرة الإمام علي عليه السلام

میں جعفر مرتضی العاملی نے نقل کیا ہے.

وہی غزوہ حنین کے مال کی تقسیم کا واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عباس بن مرداس رضی اللہ عنہ کو اللہ کے نبی نے چار یا چالیس اونٹ دیئے جس سے عباس ناراض ہوا اور اس نے اشعار پڑھے تو آپ علیہ السلام نے حضرت علی سے فرمایا کہ اس کی زبان کاٹ دو تو حضرت علی نے عباس کا ہاتھ پکڑا اور عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت علی مجھے لے کر چل پڑے، میں نے کہا کہ اے علی! کیا آپ میری زبان کاٹیں گے؟ تو حضرت علی نے فرمایا کہ میں وہ کرونگا جس کا مجھے حکم ہوا ہے اور مجھے اونٹوں کے ریوڑ میں لے گئے اور فرمایا کہ چار سے لے کر سو تک اونٹ گن لو۔  عباس کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آپ لوگ بہت نرم دل اور کرم والے لوگ ہیں، تو حضرت علی نے کہا کہ اللہ کے نبی نے تجھے مہاجرین کی صف میں شامل کرکے چار اونٹ دیئے، اب آپ سو اونٹ لے کر مؤلفة القلوب میں ہوجاؤ، میں نے کہا کہ مجھے مشورہ دیجئے تو حضرت علی نے فرمایا کہ جو دیا گیا ہے اس پر راضی ہوجاؤ، میں نے کہا کہ میں راضی ہوں۔

بعض روایات میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس کی زبان کاٹنے کا حکم دیا تو حضرت عمر ان کی طرف بڑھے تاکہ زبان کاٹ سکیں،  تو حضور علیہ السلام نے حضرت علی سے فرمایا: اے علی! تم اٹھ کر اس کی زبان کاٹ دو.

بعض روایات میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے اس کیلئے جوڑا بھجوایا اور سو اونٹ مکمل کئے۔

قالوا: كان صلى الله عليه وآله وسلم قد أعطى العباس بن مرداس أربعاً، وقيل: أربعين من الإبل يوم حنين، فسخطها، وأنشد…..الخ
فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لأمير المؤمنين عليه السلام: قم (يا علي) إليه، فاقطع لسانه. قال: فقال العباس بن مرداس: فوالله، لهذه الكلمة كانت أشدّ علىَّ من يوم خثعم، حين أتونا في ديارنا. فأخذ بيدي علي بن أبي طالب، فانطلق بي، ولو أرى أحداً يخلصني منه لدعوته، فقلت: ياعلي! إنك لقاطع لساني؟ قال: إني لممضٍ فيك ما أُمِرْتُ. قال: ثم مضى بي، فقلت: يا علي! إنك لقاطع لساني؟ قال: إني لممض فيك ما أمرت. فما زال بي حتى أدخلني الحظائر، فقال لي: اعتد ما بين أربع إلى مائة. قال: قلت: بأبي أنتم وأمي، ما أكرمكم، وأحلمكم، وأعلمكم! قال: فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أعطاك أربعاً، وجعلك مع المهاجرين. فإن شئت فخذ المائة، وكن مع أهل المائة.
قال: قلت: أشر عليّ. قال: فإني آمرك أن تأخذ ما أعطاك، وترضى قلت: فإني أفعل.
وذكروا في توضيح ما جرى: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم لما قال: اقطعوا عني لسانه، قام عمر بن الخطاب، فأهوى إلى شفرة كانت في وسطه ليسلها، فيقطع بها لسانه. فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم لأمير المؤمنين عليه السلام: قم أنت فاقطع لسانه.
وقد ذكروا كذلك: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أرسل إليه بحلة.
وفي رواية: فأتم له رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم مائة.
اقطعوا لسانه:

عرب جب کسی شخص کی زبان بندی کرنا چاہتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اس کی زبان کاٹ دو (یعنی کچھ انعام اکرام کرکے اس کی زبان جو چل رہی ہے اس کو بند کردو)۔

إن كلمة (اقطعوا لسانه) من الكلمات الشهيرة عند العرب فهم يقطعون اللسان، ای لسان الحاقد أو لسان اللحوح بالعطاء فيجعلون مالهم دون عرضهم.
وهذا القول قد روي أن الرسول صلى الله عليه وآله وصحبه وسلم قاله عن العباس بن مرداس، عندما قال: (اقطعوا عني لسانه) وذلك عندما أكثر الشكوى عن نصيبه من غنائم حنين.
 جملہ “اقطعوا لسانه” کی اسنادی حیثیت:

علامہ عراقی کہتے ہیں کہ یہ جملہ کسی بھی مستند کتاب میں موجود نہیں ہے بلکہ ابن اسحاق نے بغیر سند کے اس کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے.

قال الحافظ العراقي رحمه الله: “وأما زيادة “اقطعوا عني لسانه” فليست في شيء من الكتب المشهورة، وذكرها ابن إسحاق في السيرة بغير إسناد.
عباس بن مرداس کی معذرت:

بعض روایات میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم نے میرے بارے میں اشعار پڑھے؟ تو عباس نے معذرت کی اور عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان اشعار میری زبان پر چیونٹیوں کی طرح رینگتے ہیں اور مجھے کاٹتے ہیں تو میں اشعار پڑھنے پر مجبور ہوجاتا ہوں.

وقد عاتبه الرسول قائلاً: أتقـول فيّ الشعر؟ فاعتذر وقال: بأبي أنت وأمي إني لأجد للشعر دبيباً على لساني كدبيب النمل ثم يقرصني كما يقرص النمل فلا أجد بدا من قول الشعر فتبسم الرسول، وقال: لا تدع العرب الشعر حتى تدع الأبل الحنين.
خلاصہ کلام

سوال میں مذکور واقعہ کسی بھی مستند صحیح یا ضعیف سند سے کہیں بھی منقول نہیں بلکہ شیعوں کی کتابوں میں منقول ایک غیر مستند واقعے کو موجودہ زمانے کے خطباء نے یہ شکل دی ہے لہذا اس واقعے کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا اور پھیلانا درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
یکم نومبر ٢٠١٨

اپنا تبصرہ بھیجیں