اذان کے کلمات پر دس لاکھ نیکیاں
سوال: ایک روایت سنی ہے کہ آپ علیہ السلام نے خواتین سے فرمایا کہ تمہارے لئے اذان اور اقامت کے ہر کلمے پر دس لاکھ نیکیاں ملینگی اور مَردوں کو اس کا دُگنا اجر ملےگا… اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت مختلف کتب حدیث میں موجود ہے، بعض کتب میں مختصر اور بعض میں مکمل روایت نقل کی گئی ہے۔
علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں یہ روایت دونوں طرح سے نقل کی ہے:
آپ علیہ السلام نے خواتین کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اے خواتین کی جماعت! جب تم اس حبشی (یعنی بلال رضی اللہ عنہ) کی اذان اور اقامت سنو تو وہی کلمات کہو جو یہ کہتا ہے کہ ہر لفظ پر تم کو دس لاکھ نیکیاں ملینگی، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یہ اجر خواتین کیلئے ہے تو مردوں کو کیا ملےگا؟ فرمایا کہ اس کا دُگنا اجر ملےگا، پھر آپ علیہ السلام عورتوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ جو عورت اپنے شوہر کی اطاعت کرےگی اور اس کے حقوق کو ادا کرےگی اور شوہر کی اچھائی یاد کرےگی اور جان و مال میں کوئی خیانت نہیں کرےگی تو جنت میں اس عورت کے اور شہداء کے درمیان صرف ایک ہی درجے کا فرق ہوگا، پس اگر اس کا شوہر مؤمن اور اچھے اخلاق والا ہوگا تو وہی جنت میں اس عورت کا شوہر ہوگا ورنہ اللہ تعالی شہداء میں سے اس کو شوہر عطا کرینگے.
يامعشر النساء! اذا سمعتن أذان هذا الحبشي واقامته فقلن كما يقولُ فإِنَّ لكُنَّ بِكُلِّ حَرْفٍ ألفَ ألفِ درجةٍ؛ فقال عمرُ: فهذا للنساءِ فما للرجال؟ فقال: ضِعْفانِ ياعمرُ! ثمَّ أقبلَ علَى النساءِ فقال: إِنَّهُ لَيْسَ مِنِ امْرَأَةٍ أَطَاعَتْ وأدَّتْ حَقَّ زَوْجِها وتَذْكُرَ حُسْنَهُ ولا تخونُهُ في نفسِها ومالِهِ إلَّا كانَ بينَها وبينَ الشهداءِ درجةٌ واحدةٌ في الجنةِ، فإنْ كان زَوْجُهَا مؤمِنٌ حسنُ الخُلُقِ فهِيَ زوجتُهُ في الجنةِ وإلَّا زَوَّجَها اللهُ مِنَ الشهداءِ.
– الراوي: ميمونة بنت الحارث زوج النبي صلى الله عليه وسلم.
– المحدث: الهيثمي. – المصدر: مجمع الزوائد. – الصفحة أو الرقم: 4/311.
علامہ هیثمی نے دوسری روایت کو مختصر نقل کیا ہے جس میں مردوں کو خواتین سے دُگنا اجر ملنے کی خبر تک مذکور ہے.
يامعشر النساء! إذا سمعتن أذان هذا الحبشى وإقامته فقلن كما يقول فإن لكن بكل حرف ألف ألف درجة؛ قال عمر: هذا للنساء؛ فما للرجال؟ قال: ضِعفان ياعمر. (الطبرانى عن ميمونة). (أخرجه الطبرانى 24/11، رقم:15، 24/16، رقم:28)
ان روایات کی اسنادی حیثیت:
علامہ هیثمی کہتے ہیں کہ طبرانی میں یہ روایات دو سندوں سے منقول ہیں:
١. پہلی سند:
اس سند میں دو راوی متکلم فیہ ہیں:
١. عبداللہ الجزری: یہ راوی مجہول ہے اور کتب میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں.
٢. عباد بن کثیر الثقفی البصری:
سیر اعلام النبلاء میں ان کے متعلق ائمہ حدیث کے اقوال:
١. امام بخاری کہتے ہیں کہ محدثین نے اس کو چھوڑ دیا تھا یعنی یہ متروک راوی ہے.
قال البخاري: تركوه.
٢. ابن معین کہتے ہیں کہ (حدیث کے بارے میں) یہ راوی کچھ بھی نہیں.
وقال ابن معين: ليس بشيء.
٣. ابن ابی رزمہ کہتے ہیں کہ عبادات میں ان سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا لیکن احادیث میں یہ کچھ بھی نہیں.
وقال ابن أبي رزمة: ما أدري من رأيت أفضل منه فإذاجاءالحديث فليس منها في شيء.
٤. علامہ ابن حجر نے تقریب میں ان کو متروک راوی قرار دیا ہے
نوٹ: علامہ هیثمی نے لکھا ہے کہ یہ جو بعض محدثین نے عباد بن کثیر کی توثیق کی ہے تو وہ عباد بن کثیر الرملی ہیں، لیکن سیر اعلام النبلاء میں مصنف لکھتے ہیں کہ یہ رملی تو میری نظر میں بصری سے بھی زیادہ کمزور راوی ہے.
قال الهيثمى (1/332): رواه الطبرانى فى الكبير بإسنادين فى أحدهما عبدالله الجزرى عن ميمونة ولم أعرفه وعباد بن كثير وفيه ضعف وقد وثقه جماعة وبقية رجاله ثقات.
٢. دوسری سند:
بکر بن عبدالوہاب قال حدثني عكرمة بن جعفر عن عقبة بن كثير عن خراش عن ابن عبدالله عن ميمونة.
اس سند میں بکر بن عبدالوہاب کے بعد سے میمونہ رضی اللہ عنہا تک تمام راوی مجہول ہیں.
والإسناد الآخر فيه جماعة لم أعرفهم. وأخرجه أيضًا: الديلمى (1/275، رقم 1072)
علامہ البانی نے السلسلة الموضوعة میں اس روایت کو نقل کرکے فرمایا ہے کہ یہ انتہائی منکر روایت ہے.
قال الألباني: حديث منكر جداً.
٣. تیسری سند:
اس مضمون کی ایک روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے لیکن اس میں ایک لفظ پر دو ہزار نیکیاں ملنے کا تذکرہ ہے.
عمران بن موسى بن يعقوب، أبوموسى الفرغاني: قدم بغداد حاجا وحدث بها عن عبدالصمد بن الفضل البلخي. روى عنه علي ابن عمر السكري.
أخبرنا علي بن أبي علي، حدثنا علي بن عمر الحربي، حدثنا أبوموسى عمران بن موسى بن يعقوب (قدم علينا من خراسان حاجا) حدثنا عبدالصمد بن الفضل البلخي، حدثنا النضر بن سلمة المكي، حدثنا عبدالله بن نافع المدني عن عبدالله بن العلاء الأنصاري عن محمد بن المنكدر عن جابر بن عبدالله عن عمر بن الخطاب، قال: دخلت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم المسجد والمؤذن يؤذن، فعدل إلى النساء فقال لهن: “قلن مثل ما يقول، فإن لكن بكل حرف ألفي حسنة”، قال: قلت: يارسول الله! هذا للنساء، فما للرجال؟ قال: لهم الضِعف يا ابن الخطاب. (خطیب بغدادی)
اس روایت کی تحقیق:
اس روایت کی سند میں ایک راوی نضر بن سلمہ المکی شاذان المروزی ہے جن کے بارے میں محدثین کا کلام کافی سخت ہے.
النضر بن سلمة شاذان المروزي [أَبُومحمد].
١. ابوحاتم کہتے ہیں کہ یہ روایات گھڑتا تھا.
قال أبوحاتم: كان يفتعل الحديث.
. ابن عدی کہتے ہیں کہ یہ مدینہ منورہ میں رہتا تھا، ان کے بارے میں عباس بن عبدالعظیم سے پوچھا گیا تو انہوں نے منہ کی طرف اشارہ کیا کہ یہ جھوٹ بولتا تھا.
نضر بن سلمة شاذان المروزي كان مقيما بمدينة الرسول يكنى أبامحمد ثنا الحسن بن عثمان ثنا النضر بن سلمة أبومحمد الخراساني بمكة سمعت عبدان يقول سألنا عباس العنبري عن النضر بن سلمة فأشار إلى فمه. قال ابن عدي: أراد أنه يكذب.
٣. محدثین کہتے ہیں کہ یہ روایات گھڑتا تھا.
وسمعت عبدان يقول قلت: لعبدالرحمن بن خراش هذه الأحايث التي يحدث به غلام خليل من حديث المدينة من أين له؟ قال: سرقها من عبدالله بن شبيب وسرقه ابن شبيب من شاذان ووضعه شاذان واسمه النضر بن سلمة.
٤. ابن حبان کہتے ہیں کہ اس کی روایات کے بارے میں بتانے کیلئے ہی انکا نقل کرنا جائز ہے ورنہ نہیں.
وقال ابن حبان: سكن النضر بن سلمة مكة، يروي عن جعفر بن عون والعراقيين وعبدالله بن نافع والمدنيين، لا تحل الرواية عنه إلا للاعتبار.
٥. احمد بن محمد کہتے ہیں کہ ان سے مذاکرہ کرنے سے ہمیں ان کا جھوٹا ہونا معلوم ہوا.
سمعت أحمد بن محمد بن عبدالكريم الوزان يقول: عرفنا كذبه من المذاكرة.
٦. امام دارقطنی کہتے ہیں کہ اس پر احادیث گھڑنے کی تہمت بھی لگی ہے.
وقال الدارقطني في النضر بن سلمة شاذان: كان بالمدينة وكان يتهم بوضع الحديث.
اس کے اساتذہ:
وقال الخطيب: سكن مكة وذكر في شيوخه: إبراهيم بن خثيم، وعبدالله بن نافع، ويحيى بن إبراهيم بن أبي قتيلة، وإسحاق بن محمد الفروي. وفي الرواة عنه: محمد بن مسلم بن واره، وأبابكر الباغندي الحافظ.
خلاصہ کلام
اذان اور اقامت کا جواب دینے کی ترغیب مختلف صحیح روایات میں منقول ہے لیکن اس مخصوص اجر کے متعلق مذکورہ روایات سند کے لحاظ سے بلکل بھی درست نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنے اور اس کو بیان کرنے سے احتراز کرنا چاہیئے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ