محمد نام رکھنے کی فضیلت
سوال: یہ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا ایک فتوی ہے جس میں محمد نام رکھنے کے فضائل ذکر کئے ہیں، لیکن ہمارے ایک مفتی صاحب کہتے ہیں کہ یہ روایات درست نہیں… برائے مہربانی اس کی تحقیق فرما دیجئے…
الجواب باسمه تعالی
اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ محمد تمام ناموں میں افضل اور اعلی نام ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے محمد نام رکھنا نہ صرف سعادت کی بات ہے بلکہ یہ ایک عظیم نسبت بھی ہے.
فتوے میں مذکور روایات اور ان کی اسنادی حیثیت:
١. سمّوا باسمی ولا تکنوا بکنیتی”.
یہ صحیح مسلم کی روایت ہے.
٢. حديث مرفوع: أَخْبَرَنَا مُطَرِّفُ بْنُ عَبْدِالله الْيَسَارِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُمَرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “مَا ضَرَّ أَحَدَكُمْ لَوْ كَانَ فِي بَيْتِهِ مُحَمَّدٌ، وَمُحَمَّدَانِ، وَثَلاثَةٌ”.* (رواہ ابن سعد عن عثمان العمري مرسلا).
قال الشيخ الألباني: ضعيف. [انظر حديث رقم: 5094 في ضعيف الجامع].
یہ روایت سند کے لحاظ سے کچھ ضعیف تو ہے لیکن فضائل میں بیان کی جاسکتی ہے.
٣. مَنْ وُلِدَ لَهُ مَوْلُودٌ فَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا تَبَرُّكًا بِهِ كَانَ هُوَ وَمَوْلُودُهُ فِي الْجَنَّةِ.* [فضائل التسمیة لابن أبی بکیر: 30، مشیخة قاضي المارستان:453].
ترجمہ: جس نے اپنے (پیدا ہونے والے) بچے کا نام تبرکاً محمد رکھا، وہ اور اس کا بچہ دونوں جنتی ہوں گے.
حکم: موضوع (من گھڑت).
یہ جھوٹی روایت ہے اور اسے تراشنے والا حامد بن حماد بن مبارک عسکری ہے، جیسا کہ حافظ ذہبی رحمه اللہ کہتے ہیں: “المتهم بوضعه حامد بن حماد العسکري” اس حدیث کو گھڑنے کا الزام حامد بن حماد عسکری کے سر ہے. [تلخیص کتاب الموضوعات: ص:35].
حافظ ابن الجوزی رحمه اللہ نے اسے “موضوعات” (1/57) میں ذکر کیا ہے.
جبکہ حافظ سیوطی کا اللآلیٔ المصنوعة (1/106) میں اس جھوٹی روایت کی سند کو “حسن” کہنا انتہائی درجہ کا تساہل ہے. (شیخ طلحہ منیار
٤. من سمّی ولدَہ محمدا أنا شفیعه”.
یہ روایت العرف الشذی میں طبرانی کے حوالے سے نقل کی گئی ہے لیکن تلاش بسیار کے باوجود یہ روایت ہمیں کہیں بھی نہ مل سکی ممکن ہے حضرت اقدس نے روایت بالمعنی بیان فرمائی ہو.
٥. “إذا كان يومُ القيامة نادى منادٍ: يامحمد! قم فادخل الجنة بغير حساب، فيقوم كلُّ مَن كان اسمه محمد، ويتوهم أن النداء له، فلكرامة محمد لا يُمنعون”.
قیامت کے دن ایک آواز آئےگی کہ اے محمد! کھڑے ہوجایئے اور جنت میں داخل ہوجائیں، تو محمد نام والے سارے افراد اس گمان پر کھڑے ہوجائینگے کہ شاید ہمیں پکارا گیا ہے، تو آپ علیہ السلام کے اکرام کی وجہ سے انکو جنت میں داخلے سے نہیں روکا جائےگا.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کو علامہ سیوطی نے اللآلئ المصنوعة (صفحة:97) میں اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے.
حديث قدسي:* وَقَدْ أَخْبَرَنَا الشَّيْخُ الْإِمَامُ مُفْتِي الْعَصْرِ أَبُوعَبْدِالله مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الصَّاعِدِيُّ الْفَرَاوِيُّ، فِيمَا قَرَأْتُ عَلَيْهِ، قُلْتُ لَهُ: أَخْبَرَكَ الشَّيْخُ أَبُوسَعِيدٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَشَّابُ الصُّوفِيُّ رَحِمَهُ الله فِي كِتَابِهِ، فَأَقَرَّ بِهِ، أنا الأُسْتَاذُ أَبُوعَمْرٍو أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ الزَّاهِدُ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ مُحَمَّدَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ مُحَمَّدٍ الْخَطِيبَ، بِالْمَدِينَةِ فِي حَانُوتِهِ، فِي مَقْرَأَتِهِ مُقَابِلَ مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحِذَاءَ قَبْرِهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ جَدِّي مُحَمَّدَ بْنَ سُهَيْلِ بْنِ إِسْحَاقَ الْفَرَائِضِيَّ، أَنَا أَبِي، يَقُولُ: وَيَرْفَعُ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: “إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ نَادَى مُنَادٍ: يَامُحَمَّدُ! قُمْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ. فَيَقُومُ كُلُّ مَنِ اسْمُهُ مُحَمَّدٌ، فَيَتَوَهَّمَ أَنَّ النِّدَاءَ لَهُ فَلِكَرَامَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَلَيْهِ وسلم لا يُمْنَعُونَ”.
اس سند کے راویوں کا حال:
یہ روایت مرسل ہے اور اس کی سند میں چار راوی مجہول الحال ہیں جن کی وجہ سے یہ سند ناقابل اعتبار ہے.
١. أَبِي: مجهول الحال.
٢. جَدِّي مُحَمَّد بْن سُهَيْلِ بْنِ إِسْحَاقَ الْفَرَائِضِيَّ: مجهول الحال.
٣. أَبَا الْحَسَنِ مُحَمَّدَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ مُحَمَّدٍ الْخَطِيبَ: مجهول الحال.
٤. الأُسْتَاذُ أَبُوعَمْرٍو أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ الزَّاهِدُ: مجهول الحال.
٥. الشَّيْخُ أَبُوسَعِيدٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَشَّابُ الصُّوفِيُّ: صدوق، حسن الحديث.
٦. الشَّيْخُ الْإِمَامُ مُفْتِي الْعَصْرِ أَبُوعَبْدِالله مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الصَّاعِدِيُّ الْفَرَاوِيُّ: ثقة.
ابن عراق نے اپنی کتاب تنزیه الشریعة میں اس سند کو ذکر کرکے فرمایا کہ اس سند سے یہ روایت ابوالمحاسن عبدالرزاق بن محمد الطبسی نے اپنی کتاب الاربعین میں معضل سند سے نقل کی ہے اور اس کی سند سے کافی راوی ساقط ہیں.
آگے لکھتے ہیں کہ میرے بعض مشائخ کہتے تھے کہ یہ روایت من گھڑت ہے.
قال ابن عراق: أخرجه ابوالمحاسن عبدالرزاق بن محمد الطبسي في الأربعين بسند معضل سقط عنه عدة رجال. قلت: قال بعض أشياخی: هذا حديث موضوع بلا شك. (التنزيه: ٢٢٦/١)
شیخ طلحہ منیار صاحب کی تحریر:
محمد نام رکھنے کی فضیلت کے متعلق شیخ طلحہ منیار صاحب کی تحریر مختصرا نقل کی جاتی ہے:
اہل علم کی تصریحات:
محمد نام کی فضیلت اور فوائد وبرکات کے متعلق جتنی بھی احادیث وارد ہوئی ہیں، وہ ساری کی ساری جھوٹی ہیں، جیسا کہ
١. حافظ ابن الجوزی رحمه اللہ کہتے ہیں: “وقد روي في هذا الباب أحادیث، لیس فیها ما یصح” اس باب میں بیان کی جانے والی کوئی روایت صحیح نہیں۔ [الموضوعات: 1/158]
٢. حافظ ذہبی رحمه اللہ کہتے ہیں: “وهذه أحادیث مکذوبةٌ” یہ ساری روایتیں جھوٹی ہیں۔ [میزان الاعتدال في نقد الرجال: 1/129]
٣. حافظ ابن القیم الجوزیة رحمه اللہ کہتے ہیں: “وفي ذلك جزءٌ، کله کذب” اس بارے میں پورا ایک کِتابچہ ہے جو کہ سارا جھوٹ کا پلندہ ہے. [المنار المنیف فی الصحیح والضعیف: ص:52]
٤. علامہ حلبی کہتے ہیں: قال بعضهم: ولم یصح في فضل التسمیة بمحمد حدیث، وکل ما ورد فیه؛ فهو موضوع. بعض علماء کا کہنا ہے کہ محمد نام کی فضیلت کے بارے میں کوئی حدیث صحیح نہیں، بلکہ اس بارے میں بیان کی جانے والی ساری روایات من گھڑت ہیں۔ [إنسان العیون في سیرة الامین المأمون المعروف بالسیرة الحلبیة:1/121]
٥. علامہ زرقانی لکھتے ہیں: وذکر بعض الحفاظ أنه لم یصح في فضل التسمیة بمحمد حديث. بعض حفاظِ حدیث کا کہنا ہے کہ محمد نام کی فضیلت کے بارے میں کوئی حدیث صحیح نہیں۔ [شرح الزرقانی علی المواهب اللدنیة: 7/307]
٦. ابن عراق کنانی لکھتے ہیں: قال الأُبی: لم یصح في فضل التسمیة بمحمد حدیث، بل قال الحافظ أبوالعباس تقی الدین الحراني: کل ما ورد فیه؛ فهو موضوع. علامہ اُبّی کہتے ہیں کہ محمد نام کی فضیلت میں کوئی حدیث ثابت نہیں، بلکہ حافظ ابوعباس تقی الدین حرانی (یعنی ابن تیمیہ رحمه اللہ) کے قول کے مطابق اس بارے میں بیان کی جانے والی ساری کی ساری روایات من گھڑت ہیں۔ [تنزیه الشریعة المرفوعة عن الأخبار الشنیعة الموضوعة 1/174].
خلاصہ کلام
جیسا کہ فتوے میں مذکور ہے کہ محمد نام کی فضیلت کی اکثر روایات سند کے لحاظ سے درست نہیں، لہذا ان جیسی روایات کے نقل کرنے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف انکی نسبت کرنے میں احتیاط کی جائے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ