ٹڈی کے وجود کی برکت
سوال :ایک روایت سنی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مخلوقات میں سے سب سے پہلے ٹڈی ختم ہوگی، اس کے بعد دیگر سارا نظام برباد ہونا شروع ہوگا …کیا یہ بات درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ قیامت کی علاماتِ قریبہ اور بعیدہ، اسی طرح علاماتِ صغیرہ اور کبیرہ کے متعلق بےشمار روایات موجود ہیں البتہ سوال میں مذکور روایت سند کے لحاظ سے کافی کمزور ہے.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ٹڈیاں کم ہوگئیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسکے متعلق معلوم کروایا تو کچھ خبر نہ ملی جس سے حضرت عمر پریشان ہوگئے اور یمن، شام اور عراق کی طرف لوگوں کو بھیجا تو یمن والا شخص ایک مٹھی بھر ٹڈیاں لے کر آیا اور حضرت عمر کے سامنے ڈال دیں، جب حضرت عمر نے ٹڈیاں دیکھیں تو تین مرتبہ تکبیر پڑھی اور فرمایا کہ میں نے آپ علیہ السلام سے سنا ہے کہ اللہ تعالی نے ایک ہزار مخلوقات بنائی ہیں، چھ سو سمندر میں اور چار سو خشکی میں، ان میں سے سب سے پہلے ختم ہونے والی مخلوق ٹڈی ہے، جب یہ ہلاک ہوگی تو پھر ساری مخلوقات ہلاک ہوجائینگی.*
الحديث رواه أبويعلى كما في “المطالب العالية” (10/659) وفيه: قَالَ أَبُويَعْلَى: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، ثنا عُبَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، ثنا محمَّد بْنُ عِيسَى ابن كَيْسَانَ، ثنا ابْنُ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ: قَلَّ الْجَرَادُ فِي سَنَةٍ مِنْ سِنِي عُمَرَ رَضِيَ الله عَنْهُ الَّتِي وَلِيَ فِيهَا فَسَأَلَ عَنْهُ فَلَمْ يُخْبَرْ بِشَيْءٍ فَاغْتَمَّ لِذَلِكَ، فَأَرْسَلَ رَاكِبًا إِلَى الْيَمَنِ وَرَاكِبًا إِلَى الشَّامِ وَرَاكِبًا إِلَى الْعِرَاقِ فَسَأَلَ هَلْ رُوي مِنَ الْجَرَادِ شَيْءٌ أَمْ لَا؟ فَأَتَاهُ الرَّاكِبُ الَّذِي مِنْ قِبَلِ الْيَمَنِ بِقَبْضَةٍ مِنَ جَرَادٍ فَأَلْقَاهَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَلَمَّا رَآهَا كَبَّرَ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: “خَلَقَ الله عزَّوجلَّ أَلْفَ أُمَّةٍ، مِنْهَا سِتُّمِائَةٍ فِي الْبَحْرِ وَأَرْبَعُمِائَةٍ فِي الْبَرِّ، فَأَوَّلُ شَيْءٍ يَهْلِكُ مِنْ هذه الأمة الجراد، فإذا هَلَكَتْ تَتَابَعَتْ مِثْلَ النِّظَامِ إِذَا انْقَطَعَ سِلْكُهُ”.
[- رواه ابن حبان في “المجروحين” (2/256،257(
– ورواه ابن عدي في “الكامل” (7/57،58) و (7/487(
– والدولابي في “الكنى والأسماء” (2/712(،
– وابن أبي عاصم في “الأوائل” (ص:90،91(،
– والبيهقي في “شعب الإيمان” (12/412،414(
– وأبوالشيخ في “العظمة” (5/1783(
– والداني في “السنن الواردة في الفتن” (5/985(.
كلهم من طريق عُبَيْد بْن وَاقِدٍ الْقَيْسِيّ عن مُحَمَّد بْن عِيسَى الْهُذَلِيّ به.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
• اس سند میں ایک راوی ہے عبيد بن واقد القیسی اس راوی کے بارے میں محدثین کے اقوال:
١ .ابوحاتم کہتے ہیں کہ یہ ضعیف راوی ہے.
قال أبوحاتم: ضعيف الحديث.
٢ .ابن عدی کہتے ہیں کہ ان کی بیان کردہ روایات کا کوئی متابع نہیں ہوتا.
وذكره ابن عدي في “الكامل”، وأورد له أحاديث، ثم قال: وعامة ما يرويه لا يتابع عليه. [“تهذيب التهذيب” (3/41-42[(
• دوسرے راوی ہیں محمد بن عيسى الهذلي اس راوی کے بارے میں محدثین کے اقوال:
١ .امام ذہبی کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں امام بخاری کی رائے یہ تھی كہ یہ شخص منکر الحدیث ہے.
قال الذهبي رحمه الله تعالى: محمد بن عيسى بن كيسان الهلالي العبدي.
عن ابن المنكدر، والحسن البصري.
قال البخاري، والفلاس: منكر الحديث.
٢ امام ابوزرعہ کہتے ہیں کہ ان سے روایت بیان کرنا درست نہیں.
وقال أبوزرعة: لا ينبغي أن يحدَّث عنه.
٣. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ شخص ابن المنکدر سے عجیب باتیں نقل کرتا ہے.*
وقال ابن حبان: يأتي عن ابن المنکدر بعجائب. [“ميزان الإعتدال” (3/677[(.
٤ . امام ذہبی ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ محمد بن عیسی کو محدثین نے بہت زیادہ ضعیف کہا ہے.
وقال الذهبي في “المغني في الضعفاء” (2/622): محمد بن عيسى بن كيسان، الهلالي العبدي، عن ابن المنكدر، ضعّفوه بمرة.
٥ .ابن حبان نے محمد بن عیسی کی یہ روایت نقل کی اور فرمایا کہ یہ موضوع (یعنی من گھڑت) روایت ہے، آپ علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت کرنا درست نہیں.
وقد ساق ابن حبان حديثه هذا في كتابه “المجروحين” (2/256،257)، وحكم عليه بأنه موضوع لا تصح نسبته إلى النبي صلى الله عليه وسلم.
٦ .ایک اور جگہ فرمایا کہ یہ شخص ثقہ راویوں سے فضول من گھڑت روایات نقل کرتا ہے، اس سے روایت لینا درست نہیں.
فقال رحمه الله تعالى: محمد بن عيسى بن كيسان الهذلي: كنيته أبويحيى صاحب الطعام، من أهل البصرة، ويقال له: العبدي، شيخ يروي عن محمد بن المنكدر العجائب، وعن الثقات الأوابد، لا يجوز الاحتجاج بخبره، إذا انفرد.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا اور اسکو پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ