مخلص دوست ایک نعمت
سوال :ایک روایت سنی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ایسی دوستی میں خیر نہیں جس میں دوست آپ کا بھلا نہ چاہے…اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
یہ روایت مختلف کتب میں مختلف الفاظ کے ساتھ موجود ہے لیکن ان تمام روایات کی سند انتہائی کمزور ہے.
١ . پہلی روایت:
اس شخص کی صحبت میں کوئی خیر نہیں جو آپ کیلئے اسی خیر کو نہ چاہے جو وہ خود اپنے لئے چاہتا ہے.
قال صلى الله عليه وسلم: “لا خير في صحبة من لا يرى لك كالذي يرى لنفسه”.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کو ابن عدی نے “الکامل فی الضعفاء” میں نقل کیا اور فرمایا کہ اس سند میں *سلیمان بن عمرو بن عبداللہ بن وھب بن ابوداود النخعی ہے جو جھوٹا اور من گھڑت روایات نقل کرنے والا ہے.
أخرجه ابن عدي في الكامل (3/246،248) ترجمة سليمان بن عمرو بن عبدالله بن وهب أبوداود النخعي، وهو كذاب يضع الأحاديث.
٢ . دوسری روایت:
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اور اس دوستی میں خیر نہیں جس میں دوست آپ کیلئے اسی خیر کا خواہشمند نہ ہو جو آپ اس کیلئے چاہتے ہیں.
ثنا سليمان بن عمرو النخعي عن أبي حازم عن سهل بن سعد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المرء على دين خليله، ولا خير في صحبة من لا يرى مثل ما ترى له.
٣ . تیسری روایت:
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ لوگ کنگھی کے دانتوں کی طرح برابر ہیں، بس عافیت کی وجہ سے فضیلت ملتی ہے، اور انسان کا نام اس کے دوستوں کی وجہ سے روشن ہوتا ہے، اور اس دوستی میں خیر نہیں جو آپ کیلئے اسی خیر کا خواہشمند نہ ہو جو آپ اس کیلئے چاہتے ہیں۔
ثنا سليمان بن عمرو ثنا إسحاق بن عبدالله بن أبي طلحة عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “الناس سواء كأسنان المشط وإنما يتفاضلون بالعافية والمرء كثير بأخيه يرفده ويجمله ولا خير في صحبة من لا يرى لك مثل ما ترى له”. زاد أبوعروبة: يرفده ويكسوه.
ان دو روایات کی اسنادی حیثیت:
ابن عدی کہتے ہیں کہ یہ دونوں روایات من گھڑت ہیں، ان کو سلیمان بن عمرو نے گھڑا ہے اور اسکی نسبت اسحاق بن عبداللہ بن طلحہ کی طرف کی ہے.
قال ابن عدي: وهذان الحديثان (وحديثنا هذا منهما) وضعهما سليمان بن عمرو على إسحاق بن عبدالله بن أبي طلحة.
٤ . چوتھی روایت:
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ایسے شخص کے ساتھ نہ چلو جو تمہاری اتنی عزت بھی نہ کرسکے جو تم اس کی کرتے ہو.*
لا تصحبن أحدًا لا يرى لك من الفضل كما ترى له.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ روایت بھی انتہائی ضعیف ہے کیونکہ اس میں ابوخزیمہ راوی منکر روایات نقل کرتا ہے.
قلت: وهذا إسناد ضعيف جدًّا.
أبوخزيمة هذا:
قال ابن حبان: يروي عن الثقات ما ليس من حديثهم، لا يجوز الاحتجاج به. ثم ساق له هذا الحديث منكرًا له عليه.
قال الألباني (10/327): ضعيف جدًّا.
– أخرجه أبونعيم في “الحلية” (10/25)، وعنه الديلمي (4/199) عن أبي خزيمة بكار بن شعيب عن ابن أبي حازم عن أبيه عن سهل ابن سعد رفعه.
وهو منكر جدًّا؛ كما قال الحافظ في “اللسان”.
اس روایت کی دوسری سند دیلمی نے نقل کی ہے جس میں سلیمان بن عمرو النخعی جھوٹا راوی ہے.
ثم روى الديلمي (4/202) من طريق سليمان بن عمرو النخعي عن إسحاق ابن عبدالله عن أنس رفعه: لا خير للمرء في صحبة من لا يرى لك مثل ما ترى له.
قلت: والنخعي هذا كذاب وضاع.
٥ . پانچویں روایت:
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس شخص کی دوستی میں خیر نہیں جو دوست اپنے ذمے آپکا اتنا بھی حق نہ سمجھتا ہو جتنا آپ اپنے ذمے اس کا حق سمجھتے ہیں.
لا خير في صحبة من لا يرى لك من الحق مثل الذي ترى له.
یہ روایت بھی من گھڑت ہے.
قال الصنعاني: موضوع.
خلاصہ کلام
ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کیلئے خیرخواہ ہونا اور اس کیلئے اسی طرح بھلائی چاہنا جیسے اپنے لئے چاہتا ہے یہ بات صحیح روایات سے ثابت ہے، لیکن سوال میں مذکور روایت چونکہ سند کے لحاظ سے کافی کمزور ہے، لہذا آپ علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت کرنا اور اسکو پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ