والد کی دعا کی شان
سوال :ایک روایت سنی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ والد کی دعا اولاد کیلئے ایسی ہے جیسے نبی کی دعا امت کیلئے…
کیا یہ بات درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
یہ روایت مختلف کتب میں منقول ہے لیکن اس کی اسنادی حیثیت انتہائی کمزور ہے.
حديث مرفوع: رَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْعَطَّارُ، عَنْ سَعِيدٍ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “دُعَاءُ الْوَالِدِ لِوَلَدِهِ مثل دُعَاءِ النَّبِيِّ لأُمَّتِهِ”.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
١. امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ یہ روایت باطل اور منکر ہے اور اس کا راوی سعید کچھ بھی نہیں.
قَالَ أَحْمَد بْن حنبل: هَذَا حَدِيث باطل منكر، وسعيد لَيْسَ حَدِيثه بشيء. (موضوعات کبری لابن الجوزی(
٢. امام زین عراقی کہتے ہیں کہ یہ منکر روایت ہے اور ابن جوزی نے اس کو من گھڑت قرار دیا ہے.
قال الزين (في شرح الترمذي): هذا حديث منكر، وحكم ابن الجوزي بوضعه.
٣. علامہ البانی نے بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے.
قال الألباني في “السلسلة الضعيفة والموضوعة” (2/203): موضوع.
٤. ابن ہانئ کہتے ہیں کہ میں نے یحیی بن سعید سے اس روایت کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ یہ باطل روایت ہے، اس کا راوی سعد ابوحبیب بیکار راوی ہے.
قال إسحاق بن إبراهيم (هو ابن هانئ): عرضت على أبي عبدالله: يحيى بن سعيد عن سعد أبي حبيب عن يزيد الرقاشي عن أنس مرفوعا به؟ فقال: حديث باطل منكر، وسمعته يقول: سعد أبوحبيب ليس بشيء.
٥. میزان میں اس راوی سعد أبوحبیب کے بارے میں امام أحمد نے فرمایا کہ اس کی روایات کسی قابل نہیں.
وهكذا وقع في “اللآلي” (2/295). ويؤيده ما في “الميزان”: سعد أبوحبيب عن يزيد الرقاشي، قال أحمد: ليس حديثه بشيء.
خلاصہ کلام
والد کی دعا اولاد کیلئے قبولیت میں بہت أعلی درجہ رکھتی ہے لیکن أنبیائےکرام کی دعا کی مشابہت والی روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں، لہذا آپ علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت کرنا اور اسكو پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ