نکاح کی بنیادیں
سوال: ایک روایت پڑھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
١. جس نے عزت حاصل کرنے کیلئے کسی عورت سے نکاح کیا، اللہ تعالی اسے ذلت دینگے۔
٢. جس نے مال کی وجہ سے شادی کی، اللہ تعالی اسے فقر دینگے (زندگی بھر لوگوں سے مانگتا ہی رہےگا)
٣. جس نے حسن وجمال کی بنیاد پر شادی کی، اللہ تعالی اسے کمتری دینگے۔
٤. جس نے اس نیت سے شادی کی کہ اسکی نگاہوں میں جھکاؤ آجائے، یا زنا اور امورِ زنا سے بچ جائے، یا صلہ رحمی کرے اور خاندانوں میں جوڑ ہوجائے تو اللہ پاک ایسے مرد کو بھی برکتیں عطا فرمائینگے اور ایسی عورت کو بھی برکتیں عطا فرمائینگے۔
اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت مختلف کتب حدیث میں موجود ہے، جیسے طبرانی کی معجم أوسط اور حلیة الأولیاء وغیرہ میں منقول ہے.
روى الطبراني في “الأوسط” (2342)، وفي “مسند الشاميين” (11)، ومن طريقه أبونعيم في “الحلية” (5/245)، وابن حبان في “المجروحين” (2/151) من طريق عَبْدالسَّلَامِ بْن عَبْدِالْقُدُّوسِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي عَبْلَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: “مَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَةً لِعِزِّهَا لَمْ يَزِدْهُ الله إِلَّا ذُلًّا، وَمَنْ تَزَوَّجَهَا لِمَالِهَا لَمْ يَزِدْهُ الله إِلَّا فَقْرًا، وَمَنْ تَزَوَّجَهَا لِحَسَبِهَا لَمْ يَزِدْهُ الله إِلَّا دَنَاءَةً، وَمَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَةً لَمْ يَتَزَوَّجْهَا إِلَّا لِيَغُضَّ بَصَرَهُ أَوْ لِيُحْصِنَ فَرْجَهُ، أَوْ يَصِلَ رَحِمَهُ بَارَكَ الله لَهُ فِيهَا، وَبَارَكَ لَهَا فِيهِ”.
– وقال الطبراني عقبه: لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا عَبْدُالسَّلَامِ.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند میں ایک راوی کافی کمزور ہے جس کا نام عبدالسلام ہے.
١. امام عقیلی کہتے ہیں کہ اس کی روایات کا کوئی متابع نہیں ہوتا.
قال العقيلي: لا يتابع على شيء من حديثه.
٢. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ من گھڑت روایات نقل کرتا ہے.
وقال ابن حبان: يروي الموضوعات.
٣. ابن عدی کہتے ہیں کہ اس کی روایات محفوظ نہیں ہوتیں.
وقال ابن عدي: عامة ما يرويه غير محفوظ. (ميزان الاعتدال:2/617)
٤. علامہ شوکانی کہتے ہیں کہ یہ من گھڑت روایات نقل کرتا ہے.
وقال الشوكاني رحمه الله في “الفوائد المجموعة” (ص:121): في إسناده: عبدالسلام بن عبدالقدوس، يروي الموضوعات.
اس روایت کی دوسری سند:
ورواه أبوطاهر المخلِّص في “المُخَلِّصيَّات” (4/111) من طريق يحيى بن عثمانَ السمسار البصريّ قالَ: حدثنا إسماعيلُ وهو ابنُ عيّاشٍ، عن عبَّادِ بنِ كثيرٍ، عمَّن سمعَ أنسَ بنَ مالكٍ يقولُ: قالَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: ….. فذكره.
اس سند میں بھی ایک کمزور راوی ہے
عباد بن کثیر الثقفی:
١. ابن معین کہتے ہیں کہ اس کی روایات نہ لکھی جائیں اور یہ بھی فرمایا كہ یہ کچھ بھی نہیں.
قال ابن معين: لا يكتب حديثه، وقال أيضا: ليس بشيء.
٢. امام ابوزرعہ کہتے ہیں كہ اس کی روایات نہ لکھی جائیں.
وقال أبوزرعة: لا يكتب حديثه.
٣. امام بخاری کہتے ہیں كہ محدثین نے اس کی روایات کو چھوڑ دیا ہے.
وقال البخاري: تركوه.
٤. امام نسائی کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے.
وقال النسائي والعجلي: متروك الحديث. (تهذيب التهذيب: 5/100)
اس مضمون کی صحیح روایت:
بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ کسی خاتون سے نکاح کی چار بنیادیں ہوسکتی ہیں مال حسب نسب خوبصورتی اور دینداری لیکن آپ علیہ السلام نے دینداری کو ترجیح دینے کی ترغیب دی ہے.
رواه البخاري (4802) ومسلم (1466) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ : لِمَالِهَا ، وَلِحَسَبِهَا ، وَلِجَمَالِهَا ، وَلِدِينِهَا ، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ )
امام نووی فرماتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے عمومی عادت بتائی کہ لوگ ان بنیادوں پر نکاح کرتے ہیں لیکن مشورہ اور ترغیب دینداری کو ترجیح دینے کی ہے
قال النووي رحمه الله في شرح مسلم:
” الصحيح في معنى هذا الحديث أن النبي صلى الله عليه وسلم أخبر بما يفعله الناس في العادة فإنهم يقصدون هذه الخصال الأربع ، وآخرها عندهم ذات الدين ، فاظفر أنت أيها المسترشد بذات الدين ، لا أنه أمر بذلك … وفي هذا الحديث الحث على مصاحبة أهل الدين في كل شيء لأن صاحبهم يستفيد من أخلاقهم وحسن طرائقهم ويأمن المفسدة من جهتهم ” اهـ باختصار .
اسی طرح ایک صحابی کو حکم فرمایا کہ اپنی مخطوبہ کو دیکھ لو کہ یہ دیکھنا آپس کی محبت کا سبب بنے گا گویا خوبصورتی سے سل میں گھر کر جائے گی.
انْظُرْ إِلَيْهَا فَإِنَّهُ أَحْرَى أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا[“رواه أحمد (رقم 17671) ، والترمذي(رقم 1087)، وابن ماجة(رقم 1865) ، والنسائي(رقم 3235)، والدارمي(رقم 2172)، وصححه الألباني في صحيح ابن ماجة (رقم1511).” . أي يلائم ويوافق ويصلح، ومنه الإدام الذي يصلح به الخبز.)اهـ
علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس روایت سے ان بنیادوں پر نکاح کی اجازت ملتی ہے لیکن دینداری افضل و اعلی ہے.
تنكح المرأة لأربع…… الحديث(قال القرطبي:معنى الحديث أن هذه الخصال الأربع هي التي يرغب في نكاح المرأة لأجلها,فهو خبر عما في الوجود من ذلك لا أنه وقع الأمر بذلك بل ظاهره إباحة النكاح لقصد كل من ذلك لكن قصد الدين أولى ) الفتح ج:9,ص:135
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور روایت سند کے لحاظ سے کافی کمزور ہے اور یہ ان صحیح روایات کے مضمون سے بھی مطابقت نہیں رکھتی جس میں نکاح کی بنیادوں میں سے حسن و جمال کو ذکر کیا گیا ہے، گویا یہ بنیاد بھی ناجائز یا قابلِ ملامت نہیں، البتہ دینداری کو مقدّم رکھنا مطلوب بھی ہے اور محبوب بھی، لہذا اس روایت کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا اور اسكو پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ