سورہ أنعام کی ابتدائی تین آیات کی فضیلت
سوال: عبقری نے اپنے کسی رسالے میں ایک روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص فجر کی نماز پڑھ کر سورہ أنعام کی پہلی تین آیات {اَلْحَمْدُ لِله الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ………..وَیَعْلَمُ مَا تَکْسِبُونَ} تک پڑھتا ہے اسکے یہاں چالیس ہزار(٤٠,٠٠٠) فرشتے اترتے ہیں، اسکے لئے چالیس ہزار(٤٠,٠٠٠) فرشتوں کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے اور اسکے پاس سات آسمانوں کے اوپر سے ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے جس کے ساتھ لوہے کا ایک ہتھوڑا ہوتا ہے، اگر شیطان اسکے دل میں کوئی بُری بات ڈالتا ہے تو فرشتہ اسے اتنا زور سے مارتا ہے کہ اسکے اور اس شیطان کے درمیان ستر(٧٠) پردے حائل ہوجاتے ہیں.
پھر جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالی ارشاد فرمائےگا:” میں تمہارا پروردگار ہوں اور تم میرے بندے ہو، تم میری رحمت کے سائے میں چلو اور کوثر سے پیو اور سلسبیل سے غسل کرو اور بلاحساب وعذاب جنت میں داخل ہوجاؤ. (تفسیر قرطبی ودرمنثور، ج: ٣، ص: ٣) “
اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
یہ روایت مختلف تفاسیر اور دیگر غیرمستند کتب میں منقول ہے لیکن یہ سند کے لحاظ سے کافی کمزور ہے.
امام سیوطی نے اس روایت کو اپنی کتاب تمهید الفرش فی الخصال الموجبة لظل للعرش میں نقل کیا ہے.
وأورده السيوطي في كتابه: تمهيد الفرش في الخصال الموجبة لظل العرش قال: أخبرني أبوعبدالله بن أبي الحسن الشاذلي إجازة عن أبي الحسن بن أبي المجد عن سليمان بن مرة أنا جعفر بن علي أنا السلفي أنا علي بن أحمد بن بيان ثنا طلحة بن علي أنا أحمد بن عثمان الآدمي ثنا محمد بن عثمان بن أبي شيبة ثنا إبراهيم بن إسحاق الصيني ثنا يعقوب القمي ثنا جعفر بن أبي المغيرة عن سعيد بن جبير عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: من قرأ إذا صلى الغداة ثلاث آيات من أول سورة الأنعام إلى {وَيَعلَمُ ما تَكسِبون}، نزل إليه أربعون ألف ملك، تكتب له مثل أعمالهم، ونزل إليه ملك من فوق سبع سماوات، ومعه مرزبة من حديد، فإن أوحى الشيطان في قلبه شيئا من الشر، ضربه ضربة، حتى يكون بينه وبينه سبعون حجابا، فإذا كان يوم القيامة، قال الله تعالى: “أَنا رَبُّكَ عَبدي، امشِ في ظِلِّي، وَاشرَب مِن الكَوثَر، وَاغتَسِل مِن السَلسَبيل، وَادخُل الجَنَّةَ، بِغَيرِ حِسابٍ وَلا عَذاب”.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند میں ایک کمزور راوی ہے جسکا نام ہے إبراهيم بن إسحاق ہے.
اس راوی کے متعلق محدثین کے اقوال:
١. دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ متروك الحدیث ہے.
قال الدارقطني: إنه متروك.
٢. ازدی کہتے ہیں کہ یہ (راہِ حق سے) بھٹکا ہوا راوی ہے.
قال الأزدي: زائغ.
٣. ابن حبان نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے.
ذكره ابن حبان في الثقات وقال: ربما خالف.
٤. علامہ ابن حجر نے لسان المیزان میں ان کی اس روایت کو ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ انتہائی منکر روایت ہے.
إبراهيم بن إسحاق الصيني الكوفي.
ووجدت له خبرا منكرا جدا، رويته في جزء طلحة بن الصقر من رواية محمد بن عثمان بن أبي شيبة عنه، عن يعقوب القمي في فضل قراءة ثلاث آيات من أول سورة الأنعام.
حکیم طارق عبقری کے وظائف:
ایک ملاقات میں ان سے عرض کیا تھا کہ وظائف کے نام پر آپ جو من گھڑت روایات پھیلا رہے ہیں خدارا اس سے اجتناب کریں، لیکن ان کا یہ دعوی تھا کہ ہمارے یہاں روایات کی تحقیق کیلئے باقاعدہ علماء کی ایک جماعت موجود ہے جو روایات کو نقل کرنے سے پہلے انکی تحقیق کرتے ہیں۔
اگر تحقیق ہوتی ہے تو وہ حضرات تحقیق کے قابل ہی نہیں، اور اگر نہیں ہوتی تو پھر عبقری صاحب کو سخت وعید میں گرفتار ہونے سے ڈرنا چاہیئے کیونکہ ان کے بیان کردہ اکثر وظائف من گھڑت یا انتہائی کمزور روایات کی بنیاد پر ہوتے ہیں.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور روایت سند کے لحاظ سے کافی کمزور ہے، لہذا آپ علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت کرنا اور اسکو پھیلانا درست نہیں.
☆ عبقری کا بتایا ہوا کوئی بھی وظیفہ جب تک کسی مستند جگہ سے نہ ملے محض عبقری کے اعتماد پر اسكو اختیار کرنا اور پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ