شیطان سے بچنے کا نسخہ
سوال: مندرجہ ذیل واقعے کی تحقیق مطلوب ہے…
شیاطین کا حضرت عروہ رضی اللہ عنہ پر قابو پانے سے عاجز ہوجانا:
حضرت عروہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ (جو حضرت أسماء بنت أبی بکر الصدیق رضی اللہ عنہا کے صاحبزادے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں ان) کا ایک عجیب اور حیرت انگیز واقعہ کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمه اللہ اپنے خلیفہ بننے سے پہلے کا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک رات میں اپنی چھت پر سویا ہوا تھا کہ راستے پر آوازیں محسوس کیں، جب جھانک کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شیاطین جوق در جوق آرہے ہیں؛ یہاں تک کہ میرے مکان کے پیچھے ایک کھنڈر میں جمع ہوگئے، پھر ابلیس بھی آگیا اور اس نے چیخ کر کہا: مَن لي بعروۃ بن الزبیر؟ کون ہے جو میرے پاس عروہ بن الزبیر کو لائےگا؟ ایک جماعت کھڑی ہوئی اور کہا کہ ہم لائیں گے، پس وہ گئے اور واپس چلے آئے اور کہا کہ ہم ان پر قادر نہ ہو سکے، ابلیس نے پھر چیخ کر کہا: مَن لي بعروۃ بن الزبیر؟ کون ہے جو میرے پاس عروہ بن الزبیر کو لائےگا؟ تو ایک اور جماعت اُٹھی اور کہا کہ ہم لائیں گے اور یہ جماعت بھی جا کر واپس آگئی اور کہا کہ ہم ان پر قادر نہیں ہوسکے۔ اس پر وہ پھر بہت زور سے چیخا؛ حتیٰ کہ میں یہ سمجھا کہ زمین شق ہوگئی پھر چیخ کر کہا: من لي بعروۃ بن الزبیر؟ کون ہے جو میرے پاس عروہ بن الزبیر کو لائےگا؟ تو ایک تیسری جماعت اُٹھی اور کہا کہ ہم لائیں گے اور یہ جماعت بھی جا کر بہت دیر میں واپس آگئی اور کہا کہ ہم ان پر قادر نہیں ہوسکے، اس پر ابلیس غضبناک ہو کر چلا گیا اور شیاطین بھی اس کے پیچھے ہوگئے.
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمه اللہ یہ واقعہ دیکھ کر حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور یہ سارا واقعہ سنایا، تو انہوں نے کہا کہ میرے والد حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا کہ جو بھی شخص صبح شام اس دعا کو پڑھتا ہے، اللہ اس کو ابلیس اور اس کے لشکر سے محفوظ رکھتے ہیں، وہ دعا یہ ہے:
“بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ذِيْ الشَّأنِ، عَظِیْمِ الْبُرْھَانِ، شَدِیْدِ السُّلْطَانِ، مَاشَاءَاللهُ کَانَ، أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطَانِ”
ترجمہ: اللہ کے نام سے جو شان والا ہے، بڑی دلیل والا ہے، زبردست سلطنت والا ہے، جو اللہ چاہے وہ ہوتا ہے، میں شیطان سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں. (تاریخ ابن عساکر : ۴۰/۲۶۷، مختصر تاریخ دمشق: ۱/۲۲۷۶، کنزالعمال: ۵۰۱۷)
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت مختلف کتب میں ابن عساکر کی تاریخِ دمشق کے حوالے سے منقول ہے اور اس کی سند ابن عساکر ہی میں منقول ہے.
الدعاء أخرجه ابن عساكر في (تاريخ مدينة دمشق، ج:40، ص:268) والديلمي في (مسند الفردوس، ج:4، ص:19، ر:6054) قال: قال الحاكم: قرأت بخط أبي عمرو المستملي، حدثني أبوالحسين أحمد بن محمد النيسابوري على باب حانوته سنة اثنان وثمانين ومائتان، حدثني أحمد بن محمد بن غالب الباهلي، حدثنا علي بن حماد، عن حر بن فرقد [في تاريخ دمشق: جسر بن فرقد]، عن هشام بن عروة، قال جاء عمر بن عبدالعزيز قبل أن يستخلف الى عروة بن الزبير فقال له: رأيت البارحة عجبا، كنت فوق سطحي مستلقيا على فراشي فسمعت جلبة في الطريق فاشرفت فظننت عسكر العس، فإذا الشياطين يجيئون كردوسا كردوسا حتى اجتمعوا في جوبة خلف منزلي ،قال: ثم جاء إبليس؛ فلما اجتمعوا هتف إبليس بصوت عال فتفازعوا، فقال: من لي بعروة بن الزبير؟ فقالت طائفة منهم: نحن؛ فذهبوا ورجعوا، وقالوا: ما قدرنا عليه من شيء، قال فصاح ثانية أشد من الاولى فقال: من لي بعروة بن الزبير؟ فقالت طائفة أخرى: نحن، فذهبوا فلبثوا طويلا ثم رجعوا وقالوا: ما قدرنا عليه من شيء، فصاح الثالثة ظننت أن الأرض انشقت، فتفازعوا فقال: من لي بعروة بن الزبير؟ فقال جماعتهم: نحن، فذهبوا ثم لبثوا طويلا ثم رجعوا وقالوا: ما قدرنا عليه من شيء، قال: فذهب إبليس مغضبا واتبعوه، قال: فقال عروة لعمر بن عبدالعزيز: حدثني أبي الزبير بن العوام قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: “ما من رجل يدعو بهذا الدعاء في أول ليله وأول نهاره، إلا عصمه الله من إبليس وجنوده، بسم الله ذي الشأن، عظيم البرهان، شديد السلطان، ماشاءالله كان، أعوذ بالله من الشيطان”.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
ہمارے علم کے مطابق اس روایت کی اس کے علاوہ کوئی اور سند نہیں ہے اور یہ سند بھی انتہائی کمزور ہے جسکی وجہ اس سند میں ایک راوی ہےأحمد بن محمد بن غالب الباهلي، غلام خليل
اس راوی کے بارے میں محدثین کے اقوال:
١. ابوداود کہتے ہیں کہ یہ بغداد کا دجال ہے.
قال أبُوداود: أخشى أن يكون دجال بغداد.
٢. دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے.
وقال الدارقطني: متروك.
٣. ابوبکر النقاش کہتے ہیں کہ یہ بیکار راوی ہے.
وقال أبوبكر النقاش: وهو واه.
٤. حاکم کہتے ہیں کہ ابوبکر بن اسحاق کہتےتھے کہ مجھے اس کے جھوٹے ہونے میں شک نہیں.
وقال الحاكم: سمعت الشيخ أبابكر بن إسحاق يقول: أحمد بن محمد بن غالب ممن لا أشك في كذبه.
٥. ابوداود کہتے ہیں کہ مجھ پر لوگوں نے اس کی احادیث پیش کیں جن میں چار سو متون اور سند جھوٹے تھے.
وقال أبُوداود: قد عرض علي من حديثه فنظرت في أربع مِئَة حديث أسانيدها ومتونها كذب كلها.
٦. حاکم کہتے ہیں کہ اس نے محدثین کی جماعت سے من گھڑت روایات نقل کی ہیں.
وقال الحاكم: روى عن جماعة من الثقات أحاديث موضوعة.
● اس واقعے کا ایک اور مأخذ:
ابن ابی الدنیا نے اپنے رسائل میں کتاب الہواتف کے عنوان کے تحت شعبہ بن ابی الروحاء الحمال (قلی) سے یہ دعا نقل کی ہے کہ مجھے اندھیری رات میں ایک جن نے یہ دعا سکھائی تھی. (مجموعة رسائل ابن ابی الدنیا ج:4، کتاب الهواتف:53)
خلاصہ کلام
اس دعا کے الفاظ اگرچہ درست ہیں لیکن سند کے لحاظ سے یہ دعا بالکل بھی درست نہیں، لہذا آپ علیہ السلام کی طرف اس دعا کی نسبت کرکے اسکو پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ