جمعہ کی نماز پر حج کا ثواب
سوال: ایک روایت سنی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ بلاشبہ تمہارے لئے ہر جمعے کے دن میں ایک حج اور ایک عمرہ موجود ہے، پس جمعہ کی نماز کیلئے جلدی نکلنا حج ہے اور جمعہ کی نماز کے بعد عصر کی نماز کیلئے انتظار کرنا عمرہ ہے. (سنن کبری للبيهقى) کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت مختلف کتب حدیث میں موجود ہے.
أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللهِ الْحَافِظُ، أنبأ أَبُوالْحَسَنِ أَحْمَدُ بْنُ مَحْبُوبٍ الرَّمْلِيُّ بِمَكَّةَ ثنا الْقَاسِمُ بْنُ الْمَهْدِيِّ، ثنا أَبُومُصْعَبٍ الزُّهْرِيُّ، ثنا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّ لَكُمْ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ حَجَّةً وَعُمْرَةً، فَالْحَجَّةُ الْهَجِيرُ لِلْجُمُعَةِ، وَالْعُمْرَةُ انْتِظَارُ الْعَصْرِ بَعْدَ الْجُمُعَةِ”.
وَكَذَلِكَ رَوَاهُ أَبُوأَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ مَهْدِيٍّ. تَفَرَّدَ بِهِ الْقَاسِمُ، وَرُوِيَ ذَلِكَ عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ مَرْفُوعًا، وَفِيهِمَا جَمِيعًا ضَعْفٌ. (السنن الکبری للبیهقی)
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کو امام ذہبی نے اپنی کتاب المهذب فی اختصار السنن الکبیر میں دو سندوں کے ساتھ نقل کیا اور ان دونوں پر باطل ہونے کا حکم لگایا ہے.
إنَّ لَكم في كلِّ جمعةٍ حجَّةً وعمرةً فالحجَّةُ الْهجيرُ إلى الجمعةِ والعمرةُ انتظارُ العصرِ بعدَ الجمعةِ.
– الراوي: سهل بن سعد الساعدي.
– الصفحة أو الرقم: 3/1172.
وروی فی ذلك عن ابی معشر عن نافع عن ابن عمر مرفوعا.
وهما باطلان
لسان المیزان میں اس روایت کے راوی
قاسم بن عبدالله بن مهدي الإخميمي الحافظ، وهو قاسم بن مهدي، وهو قاسم بن عبدالرحمن بن مهدي
کا تذکرہ کرتے ہوئے اس روایت کو نقل کیا گیا اور حکم لگایا گیا ہے کہ یہ من گھڑت اور باطل روایت ہے.
رحل إليه ابن عَدِي إلى إخميم وقال: حدثنا من حفظه ولم يكن في كتابه: حدثنا أبومصعب حدثنا ابن أبي حازم، عَن أبيه، عَن سهل رضي الله عنه مرفوعا: إن لكم في كل جمعة حجة وعمرة، الحجة الهجير إلى الجمعة، والعمرة انتظار العصر بعد الجمعة.
قلت: هذا موضوع باطل.
خلاصہ کلام
جمعہ کے فضائل میں بےشمار صحیح روایات موجود ہیں، لیکن سوال میں مذکور روایت چونکہ سند کے لحاظ سے درست نہیں لہذا آپ علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت کرنا اور اسکو پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ