زبور میں أمت محمدیہ کے فضائل
سوال: حیاة الصحابہ میں ایک روایت پڑھی ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت داود علیہ السلام کو وحی بھیجی اور اس میں آپ علیہ السلام اور انکی امت کی تعریف فرمائی ہے… کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
مذکورہ روایت مختلف کتب میں امام بیهقی کی دلائل النبوہ کے حوالے سے منقول ہے، بعض کتب میں مختصرا اور بعض میں طویل روایت موجود ہے.
وہب بن منبہ کی روایت ہے کہ زبور میں داود علیہ السلام کو یہ وحی کی گئی کہ اے داود! تیرے بعد ایک نبی آئےگا جس کا نام احمد اور محمد ہوگا، وہ سردار اور سچا ہوگا، نہ میں اس سے ناراض ہونگا نہ وہ مجھے ناراض کرےگا، میں نے اس کے سارے گناہ معاف کردیئے ہیں، اس کی امت بخشی بخشائی ہے جن کو میں نے انبیاء والے نوافل دیئے، اور ان پر انبیاء والے فرائض فرض کئے ہیں، ان کا نور انبیاء جیسا ہوگا.
● دیگر کتب میں اضافہ:
اے داود! میں نے ان کو انبیاء کی طرح غسل جنابت کا حکم دیا ہے، ان کو انبیاء کی طرح جہاد کا حکم دیا ہے، اے داود! میں نے امت محمدیہ کو ایسی چھ خصوصیات دی ہیں جو اور کسی بھی امت کو نہیں دیں:
١. ان کی غلطی پر پکڑ نہیں ہوگی.
٢. جو گناہ بھی کیا ہوگا اگر وہ توبہ کرینگے تو معاف کردونگا.
٣. وہ لوگ آخرت کیلئے جو کچھ بھی عمل کرینگے اس کا اجر کئی گنا بڑھا کر ان کو دونگا.
٤. ان کیلئے میرے پاس بہت زیادہ اور اس سے افضل ہوگا جو وہ خرچ کرینگے.
٥. جب وہ مشکلات پر صبر کرکے إنا للہ وإنا إلیه راجعون کہیں گے تو ان پر رحمت نازل کرونگا اور جنت کے راستے آسان کرونگا.
٦. اگر وہ دعا مانگیں گے تو ان کی دعا قبول کرونگا، یا تو دنیا میں وہی کچھ دونگا یا اسکے بدلے کوئی برائی ہٹادونگا یا آخرت کا ذخیرہ کرونگا….إلی آخرہ.
قال: وذكر وهب بن منبه في قصة داود عليه السلام وما أوحي إليه في الزبور: «يا داود! إنه سيأتي من بعدك نبي اسمه أحمد ومحمد، صادقا سيدا، لا أغضب عليه أبدا، ولا يُغضِبني أبدا، وقد غفرت له قبل أن يعصيني ما تقدم من ذنبه وما تأخر، أمته مرحومة أعطيهم من النوافل مثل ما أعطيت الأنبياء، وافترضت عليهم الفرائض التي افترضت على الأنبياء والرسل، حتى يأتوني يوم القيامة ونورهم مثل نور الأنبياء، وذلك أني افترضت عليهم أن يتطهروا إلى كل صلاة كما افترضت على الأنبياء قبلهم، وأمرتهم بالغسل من الجنابة كما أمرت الأنبياء قبلهم، وأمرتهم بالحج كما أمرت الأنبياء قبلهم، وأمرتهم بالجهاد كما أمرت الرسل قبلهم، يا داود! إني فضلت محمدا وأمته على الأمم كلها، أعطيتهم ست خصال لم أعطها غيرهم من الأمم: لا آخذهم بالخطأ والنسيان، وكل ذنب ركبوه على غير عمد إن استغفروني منه غفرته لهم، وما قدموا لآخرتهم من شيء طيبة به أنفسهم جعلته لهم أضعافا مضاعفة، ولهم في المدخر عندي أضعاف مضاعفة وأفضل من ذلك، وأعطيتهم على المصائب في البلايا إذا صبروا وقالوا: إنا لله وإنا إليه راجعون، الصلاة والرحمة والهدى إلى جنات النعيم، فإن دعوني استجبت لهم، فإما أن يروه عاجلا، وإما أن أصرف عنهم سوءا، وإما أن أدخره لهم في الآخرة.
يا داود! من لقيني من أمة محمد يشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له صادقا بها فهو معي في جنتي وكرامتي، ومن لقيني وقد كذب محمدا، أو كذب بما جاء به واستهزأ بكتابي صببت عليه في قبره العذاب صبا، وضربت الملائكة وجهه ودبره عند منشره من قبره، ثم أدخله في الدرك الأسفل من النار».
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ روایت دلائل النبوة میں بیهقی نے اور دیگر محدثین نے بغیر سند اس روایت کو نقل کیا ہے، لیکن جامع الآثار فی مولد النبی المختار (ج:1) میں یہ روایت سند کے ساتھ منقول ہے.
قال ابوالحسن محمد بن أحمد بن البراء العبدي أخبرنا عبدالمنعم بن إدريس عن أبيه قال: وذكر وهب بن منبه في قصته داود عليه السلام وما أوحي إليه في الزبور. (جامع الاثار فی مولد النبی المختار، ج:1)
اس سند میں ایک راوی عبدالمنعم بن ادریس بن سنان ہے.
یہ عبدالمنعم، وہب ابن منبہ رحمه اللہ کے نواسے ہیں اور ان کی کتابوں سے انبیاء اور بنی اسرائیل کے واقعات نقل کرتا ہے.
عبدالمنعم بن إدريس بن سنان: يُكنى أباعبدالله، هو ابن ابنة وهب بن منبّه، وروى كتب وهب؛ من أحاديث الأنبياء، والعبّاد، وأحاديث بني إسرائيل، عن أبيه، عن وهب بن منبّه، وذكر أنّه قد لقي معمر بن راشد باليمن، وسمع منه، وكان قارئًا لكتب وهب بن منبّه، وحكمته.
مات ببغداد في شهر رمضان سنة ثمان وعشرين ومائتين، وقد قارب مائة سنة.
عبدالمنعم:
اس راوی کے بارے میں محدثین کے اقوال:
١. لسان المیزان میں اس کے ترجمے میں لکھا ہے کہ یہ مشہور قصہ گو شخص تھا، اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے.
ويقول كذلك في مقدمة أصول التفسير: كان حاطب ليل ينقل ما وجد في كتب التفسير من صحيح وضعيف وموضوع.
عبدالمُنعم بن إدريس اليماني.
مشهور قصاص ليس يعتمد عليه.
تركه غير واحد.
٢. امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ یہ وہب بن منبہ کے نام سے جھوٹ گھڑتا تھا.
وأفصح أحمد بن حنبل فقال: كان يكذب على وهب بن منبه.
٣. امام بخاری کہتے ہیں کہ اس کی روایات کسی قابل نہیں.
وقال البخاري: ذاهب الحديث.
٤. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ اپنے باپ کی طرف جھوٹی روایات گھڑتا تھا.
قال ابن حبان: يضع الحديث على أبيه وعلى غيره.
٥. امام احمد کہتے ہیں کہ اس نے اپنے باپ سے کچھ نہیں سنا.
وكذا قال أحمد إذ سئل عنه: لم يسمع من أبيه شيئا.
٦. یحیی بن معین کہتے ہیں کہ یہ جھوٹا خبیث ہے.
وقال عبدالخالق بن منصور عن ابن مَعِين: الكذاب الخبيث.
خلاصہ کلام
اس روایت کا تعلق اگرچہ اسرائیلیات سے ہے اور اسرائیلیات میں سند کی کمزوری کسی نہ کسی حد تک قابل برداشت ہوتی ہے، لیکن اگر سند میں کوئی جھوٹا اور من گھڑت روایات نقل کرنے والا راوی آجائے تو پھر اسرائیلیات بھی قابل اعتبار نہیں رہتے.
ہمارے علم کے مطابق سوال میں مذکور روایت کی اس سند کے علاوہ کوئی اور سند موجود نہیں اور اس سند کا راوی عبدالمنعم انتہائی جھوٹا راوی ہے، لہذا اس روایت کو نقل کرنا اور بیان کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ