رات کا مبارک مہمان
سوال: ایک واقعہ سنتے آرہے ہیں کہ امام شافعی رحمه اللہ ایک رات امام احمد بن حنبل کے ہاں مہمان بنے تو ان کی صاحبزادی نے ابا سے کہا کہ آپ کے مہمان نے ضروت سے زیادہ کھایا اور رات کو تہجد نہ پڑھی اور فجر کی نماز بغیر وضو ادا کی…
کیا یہ واقعہ درست ہے؟ :
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ بہت مشہور ہے اور حکایات کی تقریبا تمام کتابوں نے اس واقعے کو نقل کیا ہے کہ امام شافعی امام احمد بن حنبل کے ہاں مہمان ٹھہرے تو صبح امام احمد بن حنبل نے عرض کیا کہ میری بیٹی کو تین اشکالات ہوئے ہیں:
نمبر١:
آپ نے ضرورت سے زیادہ کھایا.
أكلت كثيرا.
نمبر٢:
آپ تہجد کیلئے نہیں اٹھے.
لم تصل ركعتين في جوف الليل.
نمبر٣:
آپ نے بغیر وضو کے فجر کی نماز پڑھی.
صليت الفجر بغير وضوء.
امام شافعی کے جوابات:
١. آپ کا کھانا حلال تھا اور حلال کھانے میں شفا ہوتی ہے اس لئے زیادہ کھایا.
أكلت كثيرا لأن طعامكم حلال وفيه شفاء.
٢. میں نے روشنی بجھا دی تھی اور دروازہ بند کردیا تھا اس لئے کسی نے مجھے تہجد پڑھتے نہیں دیکھا.
أطفأت النور وأغلقت الباب فلم يراني أحد عندما كنت أصلي في جوف الليل.
٣. میں نے فجر کی نماز عشاء کے وضو سے پڑھی ہے
صليت الفجر بوضوء صلاة العشاء.
مختلف کتابوں میں اس کے مختلف جوابات منقول ہیں.
اس واقعے کی تاریخی حیثیت:
یہ واقعہ تاریخی اعتبار سے درست نہیں کیونکہ امام شافعی رحمه اللہ کی پیدائش 150 ہجری اور وفات 204 ہجری کی ہے.
اور امام احمد بن حنبل 164 ہجری میں پیدا ہوئے اور خود امام احمد بن حنبل سے صحیح روایات سے ثابت ہے کہ انہوں نے پہلی شادی 40 سال کی عمر میں کی ہے.
قال الإمام أحمد بن حنبل: ما تزوجتُ إلا بعد الأربعين. (رواه ابن أبي يعلى في طبقات الحنابلة:1/63).
قال الذهبي في سير أعلام النبلاء (11/187): قَالَ الخَلاَّلُ: أَخْبَرَنَا المَرُّوْذِيُّ، أَنَّ أَبَاعَبْدِاللهِ قَالَ: مَا تَزَوَّجتُ إِلاَّ بَعْدَ الأَرْبَعِيْنَ.
گویا امام احمد بن حنبل کی شادی 204 ہجری میں ہوئی جو کہ امام شافعی کے انتقال کا سال ہے، تو پھر امام احمد بن حنبل کی اتنی بڑی بیٹی جو اس طرح کا کلام کرے تاریخی طور پر ممکن نہیں.
فإن الشافعي توفي في مصر عام 204، وأحمد ولد عام 164.
في ذكرى وفاته: 12 من ربيع الآخر 241هـ)
علامہ ابن جوزی نے امام احمد کی دیر سے شادی کی وجہ بیان کی ہے کہ انہوں نے اپنی فکر کو علم کیلئے مجتمع رکھا.
ولتأخُّر زواج الإمام أحمد رضي الله عنه علة أوضحها الحافظ ابن الجوزي رحمه الله تعالى في “صيد الخاطر” (ص:178) بقوله: وأختار للمبتدىء في طلب العلم أن يدافع النكاح مهما أمكن، فإن الإمام أحمد بن حنبل لم يتزوج حتى تمت له أربعون سنة، وهذا لأجل جمع الهمّ.
نوٹ: بعض حضرات اس واقعے کو برعکس ذکر کرتے ہیں کہ امام شافعی میزبان اور امام أحمد مہمان تھے، لیکن یہ واقعہ کہیں نظر سے نہیں گذرا.
خلاصہ کلام
یہ چونکہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور تاریخ ہی اس واقعے کی صحت سے انکاری ہے، لہذا اس واقعے کو بیان کرنا تاریخی اعتبار سے غلط کہا جائےگا.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ