والدین کیلئے دعا اور رزق
سوال: ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب آدمی اپنے ماں باپ کیلئے دعا کرنا چھوڑ دیتا ہے تو اس کا رزق روک دیا جاتا ہے. (جمع الجوامع)
اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت مختلف کتب میں موجود ہے.
• حديث: “إذا ترك العبد الدعاء للوالدين فإنه ينقطع من الولد الرزق في الدنيا”. (رواه الحاكم في تاريخه، والديلمي، عن أنس رضي الله عنه مرفوعا).
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
١. علامہ سیوطی رحمه اللہ اللآلئ المصنوعہ میں لکھتے ہیں کہ یہ روایت درست نہیں اسلئے کہ اس میں احمد بن خالد الجویباری پر جھوٹ کی تہمت ہے.
¤ قال السيوطي رحمه الله فى اللآلئ المصنوعة (2/250): لا يصح، والمتهم به أحمد بن خالد، وهو الجويباري.
٢. علامہ شوکانی رحمه اللہ نے بھی اس روایت کی صحت کا انکار کیا ہے.
¤ وقال الشوكاني رحمه الله فی الفوائد المجموعة (231): في إسناده أحمد بن خالد الجويباري: متهم.
أحمد بن عبدالله بن خالد الجويباري:
ويقال: الجوباري وجوبار من عمل هراة ويعرف بِسَتُّوق، وهو أبوعلي أحمد بن عبدالله الشيباني.
١. ابن عدی کہتے ہیں کہ یہ ابن کرام کیلئے من گھڑت روایات بناتا تھا اور ابن کرام اس کو آگے بیان کرتا تھا.
◇ قال ابن عَدِي: كان يضع الحديث لابن كرام على ما يريده فكان ابن كرام يخرجها في كتبه عنه.
٢. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ جھوٹا دجال ہے.
◇ قال ابن حبان: هو أبو علي الجويباري دجال من الدجاجلة، روى عن الأئمة ألوف حديث ما حدثوا بشيء منها.
٣. نسائی اور دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے.
◇ وقال النَّسَائي والدارقطني: كذاب.
٤. علامہ ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے ہیں کہ جویباری کی جھوٹ میں مثال دی جاتی ہے.
◇ قلت: الجويباري ممن يضرب المثل بكذبه.
٥. امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ جھوٹا خبیث ہے، اس نے أعمال کے فضائل میں بہت سی روایات گھڑ لی ہیں.
وسمعت الحاكم يقول: هو كذاب خبيث، وضع كثيرا في فضائل الأعمال، لا تحل رواية حديثه بوجه.
٦. ابوسعید کہتے ہیں کہ ہم نے اس سے زیادہ من گھڑت روایات بنانے والا نہیں دیکھا.
◇ وقال أبوسعيد النقاش: لا نعرف أحدا أكثر وضعا منه.
خلاصہ کلام
والدین کے فضائل میں اس قدر صحیح روایات موجود ہیں کہ کسی کمزور اور من گھڑت روایت کو بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، لہذا سوال میں مذکور روایت کا بیان کرنا اور آپ علیہ السلام کی طرف اسکی نسبت کرنا ہرگز درست نہیں. ZҐ
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ