چاند کا بڑا نظر آنا
● سوال:
محترم مفتی صاحب!
ہر سال پاکستان میں رمضان المبارک اور عید کے چاند کے متعلق بہت تشویش ہوتی ہے اور چاند نظر آجانے کے بعد اکثر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ یہ تو دو دن کا چاند ہے اور ایک روزہ کھا لیا گیا ہے…
برائے مہربانی اس مسئلے کے بارے میں رہنمائی فرمادیجئے…
الجواب باسمه تعالی
چاند دیکھنے کے متعلق شریعت کا واضح اصول یہ ہے کہ یا تو چاند دیکھ لو یا پھر اس مہینے کے تیس دن مکمل کرلو، اور وجہ بھی واضح فرمادی کہ بہت زیادہ حسابات کرنے کی ضرورت بھی نہیں، بس اگر چاند نظر آگیا تو مہینہ انتیس دن کا ہوگا ورنہ تیس دن کا.
● روایت نمبر ١:
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم اَن پڑھ امت ہیں زیادہ حسابات نہیں رکھتے، بس مہینہ کبھی انتیس کا ہوگا اور کبھی تیس کا.
□ قال النبي صلى الله عليه وسلم: “إنا أمة أمية لا نكتب ولا نحسب؛ الشهر هكذا وهكذا وهكذا وخنس إبهامه في الثالثة والشهر هكذا وهكذا وهكذا وأشار بأصابعه العشر”، يرشد بذلك أمته إلى أن الشهر تارة يكون تسعاً وعشرين وتارة يكون ثلاثين.
● روایت نمب ٢:
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ روزہ رکھنے اور عید کرنے کا تعلق چاند دیکھنے سے ہے، اگر چاند نظر آئے تو انتیس(٢٩) کا مہینہ کرکے روزہ رکھ لو اور اگر چاند نظر نہ آئے تو تیس دن کا مہینہ شمار کرلو.
□ وقال صلى الله عليه وسلم: “لا تصوموا حتى تروا الهلال أو تكملوا العدة، ولا تفطروا حتى تروا الهلال أو تكملوا العدة”.
ان روایات کی روشنی میں علامہ ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ مہینوں کی ترتیب حسابات (کیلينڈر) کی بنیاد پر نہیں بلکہ چاند دیکھنے کی بنیاد پر ہوگی.
□ ذكر شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله إجماع العلماء على أنه لا يجوز العمل بالحساب في إثبات الأهلة.
● روایت نمبر ٣ :
اپنوں کے ساتھ روزہ رکھو اور اپنوں کے ساتھ افطار کرو. (اور سبب انتشار نہ بنو)
□ ولقوله صلى الله عليه وسلم: “الصوم يوم تصومون والفطر يوم تفطرون والأضحى يوم تضحون”.
● روایت نمبر ٤ :
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مہینہ کبھی 29 کا ہوتا ہے تو جب تک چاند نظر نہ آئے روزہ مت رکھو اور اگر مطلع صاف نہ ہو تو شعبان کے تیس دن مکمل کرلو.
□ وقال صلى الله عليه وسلم: “إنما الشهر تسع وعشرون فلا تصوموا حتى تروه، فإن غم عليكم فأكملوا عدة شعبان ثلاثين يوماً”.
● چاند کے بارے میں دو مسلمانوں کی گواہی :
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب دو مسلمان گواہی دیں تو روزہ رکھو اور عید کرو
حدثوني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته وأنسكوا لها، فإن غم عليكم فأتموا ثلاثين يوماً، فإن شهد شاهدان مسلمان فصوموا وأفطروا”. رواه أحمد والنسائي
چاند کے بارے میں (ایک مسلمان) کی گواہی قبول کرنا:
آپ علیہ السلام کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا اور چاند کی گواہی دی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم اللہ کی وحدانیت اور میری رسالت کی گواہی دیتے ہو؟ تو اس نے عرض کیا کہ جی ہاں، تو آپ علیہ السلام نے اس کی گواہی قبول فرما کر روزہ رکھنے کا حکم دیا.
□ فقد روي عن ابن عباس أنه قال: جاء أعرابي وقال للنبي صلى الله عليه وسلم: رأيت الهلال، فقال: أتشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله؟ قال: نعم. فنادى النبي أن صوموا.
● اختلاف مطالع کا اعتبار:
سوال: کیا اختلاف مطالع معتبر ہیں؟
جواب: اگرچہ یہ ایک اختلافی معاملہ ہے لیکن دور صحابہ کرام میں بھی اس کا اعتبار کیا گیا ہے کہ ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر کیلئے معتبر نہیں مانی گئی.
اہل شام نے جمعے کی رات چاند دیکھ کر روزہ رکھا اور اہل مدینہ نے ہفتے کی شب، تو کسی نے ابن عباس سے عرض کیا کہ اہل شام نے تو جمعے کی شب چاند دیکھ لیا تھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم نے ہفتے کی شب دیکھا ہے، پس ہم یا تو تیس روزے مکمل کرینگے یا چاند دیکھ کر عید کرینگے (لیکن اہل شام کی رؤيت ہمارے لئے نہیں)
□ بما ثبت عن ابن عباس رضي الله عنهما أنه لم يعمل برؤية أهل الشام، وكان في المدينة رضي الله عنه، وكان أهل الشام قد رأوا الهلال ليلة الجمعة وصاموا بذلك في عهد معاوية رضي الله عنه، أما أهل المدينة فلم يروه إلا ليلة السبت، فقال ابن عباس رضي الله عنهما لما أخبره كريب برؤية أهل الشام وصيامهم: نحن رأيناه ليلة السبت فلا نزال نصوم حتى نراه أو نكمل العدة.
(رواه أحمد في مسند بني هاشم بداية مسند عبدالله بن العباس برقم:2785، والترمذي في الصوم، باب ما جاء لكل أهل بلد رؤيتهم، برقم:693).
■ دو راتوں کا چاند:
چاند نظر آنے کے بعد اس چاند کو دو دن کا شمار کرکے یہ تشویش پیدا کرنا کہ یہ دو دن کا چاند ہے اور ایک روزہ کھالیا گیا ہے یہ بات شریعتِ مطہرہ اور آپ علیہ السلام کی تعلیمات کے خلاف ہے.
کیونکہ صحابہ کرام اور محدثین عظام نے تعلیمات نبوی سے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ چاند میں اصل اس کو دیکھ لینا ہے، اور جس رات کو چاند نظر آجائے اسی رات سے چاند شمار کیا جائےگا، لہذا کبھی بھی چاند کے حجم کو بنیاد بنا کر احکام جاری نہیں کئے جائیں گے.
● ١. پہلی روایت:
راوی کہتے ہیں کہ ہم عمرے پر تھے کہ ہمیں چاند نظر آیا تو قوم کا آپس میں اختلاف ہوا، کسی نے کہا کہ یہ دو راتوں کا چاند ہے اور کسی نے کہا کہ تین راتوں کا چاند ہے، اسی دوران ہماری ملاقات حضرت ابن عباس سے ہوئی اور ہم نے قوم کا اختلاف ان کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ تم لوگوں نے چاند کب دیکھا؟ ہم نے وہ رات بتائی تو ابن عباس نے فرمایا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالی اس چاند کو دیکھنے کیلئے لمبا کردیتے ہیں، لہذا یہ اسی رات کا شمار کیا جائےگا جس رات کو یہ نظر آیا ہے.
□ فعن أبي البختري قال: خرجنا للعمرة، فلما نزلنا ببطن نخلة تراءينا الهلال، فقال بعض القوم: هو ابن ثلاث، وقال بعض القوم: هو ابن ليلتين، قال: فلقينا ابن عباس رضي الله عنهما، فقلنا: إنا رأينا الهلال، فقال بعض القوم: هو ابن ثلاث، وقال بعض القوم: هو ابن ليلتين، فقال: أي ليلة رأيتموه؟ قال فقلنا: ليلة كذا وكذا، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: “إن الله مدّه للرؤية، فهو لليلة رأيتموه”.
اس روایت کو امام مسلم نے نقل کیا اور اس پر یہ باب قائم کیا گیا کہ چاند کے بڑے اور چھوٹے ہونے کا کوئی اعتبار نہیں.
□ رواه مسلم وبوّب عليه: “باب بيان أنه لا اعتبار بكبر الهلال وصغره”.
مقصود یہ ہے کہ جب قوم میں اختلاف ہوا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ اختلاف تو آپ علیہ السلام کے زمانے میں بھی واقع ہوا تھا، تو آپ علیہ السلام نے یہی فیصلہ فرمایا تھا کہ یہ اسی رات کا چاند ہے جس رات نظر آجائے.
□ والمقصود أن القوم اختلفوا فذكر لهم ابن عباس رضي الله عنهما أن مثل هذا الاختلاف الذي حصل بينهم قد حدث في زمن النبي صلى الله عليه وسلم فقال لهم: “إن الله مدّه للرؤية، فهو لليلة رأيتموه”.
علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں کہ چاند کا چھوٹا یا بڑا ہونا اصل نہیں، بلکہ اس کا نظر آجانا اصل ہے.
□ والمعنى كما يقول الإمام ابن الجوزي: لا تنظروا إلى كبر الهلال وصغره، فإن تعليق الحكم على رؤيته.
● ٢. دوسری روایت:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ قیامت کے قرب کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ چاند پہلی بار نظر آنے پر ہی دو دن کا لگےگا.
□ في حديث أنس بن مالك رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: “من اقتراب الساعة أن يرى الهلال قَبَلاً، فيقال: لليلتين”. (رواه الطبراني في معجميه: الصغير والأوسط، وابن الجعد في مسنده، كما أورده ابن أبي شيبة في المصنّف بنحوه).
اصحاب لغت اس کا یہ معنی بیان کرتے ہیں کہ چاند اپنے وقت پر اتنا بڑا نظر آنے لگےگا کہ لوگ اس کو دو راتوں کا چاند سمجھنے لگیں گے.
□ والمعنى كما ذكر ابن الأثير وغيره من أصحاب اللغة أن يُرى الهلال ساعة طلوعه لعظمه ووضوحه من غير أن يُتطلّب، فيُظنّ أنه ابن ليلتين، بينما هو في الليلة الأولى، والعرب تقول: رأينا الهلال قَبَلاً، إذا لم يكن رئي قبل ذلك.
اسی طرح روایت میں قیامت کے قريب چاند کے پھولنے کا تذکرہ موجود ہے.
□ عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “من اقتراب الساعة انتفاخ الأهلة”.
علمائےکرام فرماتے ہیں کہ گویا پہلے دن چاند اپنے موٹاپے کی وجہ سے دو دن یا زیادہ کا لگےگا اور اس کا سبب یہ ہوگا کہ یا تو لوگ چاند کے مطالع بھول جائیں گے یا قیامت کے قریب ایسا کوئی نظام چلےگا کہ چاند موٹا ہوتا چلا جائےگا.
□ فيري هلال اليوم الأول وكأنه لليلتين أو أكثر، وهذا قد يكون لجهل الناس بمطالع الأهلة أو يحدث تغير فعلیّ فی الأهلة لاقتراب الساعة.
○ نوٹ:
انتفاخ الأهلة
والی روایات پر اگرچہ محدثین کا کلام کافی سخت ہے لیکن وہیں پر علامہ سخاوی اور شیخ البانی نے ان روایات کو شواہد کی وجہ سے حسن (لغیرہ) قرار دیا ہے، لہذا استشہاد کے طور پر یہ روایات نقل کی گئی ہیں.
خلاصہ کلام
چاند کا تعلق صرف اور صرف رؤیت کے ساتھ ہے، اب چاہے پوری دنیا کی ایک ہی رؤیت پر امت متفق ہوجائے یا پھر ہر ملک اپنی رؤیت کا اعتبار کرے، لیکن اس کو متنازعہ بنانا، اس پر باہم جھگڑنا اور اسکی وجہ سے اعمال میں شک پیدا کرنا ہرگز ہرگز درست نہیں.
ہر شخص کو چاہیئے کہ امت مسلمہ میں اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرے اور اختلاف کا سبب نہ بنے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
۸ مئی ۲۰۱۹ کراچی