نبوی گھرانے کی قربانی
● سوال:
مندرجہ ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے:
ایک مرتبہ حضرت علیؓ کے گھر میں سب نے روزہ رکھا۔ حضرت فاطمہؓ کے دو چھوٹے بچوں نے بھی روزہ رکھا۔ مغرب کا وقت ہونے والا ہے، سب کے سب مصلہ بچھائے رو رو کر دعا مانگتے ہیں۔ حضرت فاطمہؓ دعا ختم کرکے گھر میں گئیں اور چار روٹیاں بنائیں، اس سے زیادہ اناج گھر میں نہیں ہے۔ پہلی روٹی اپنے شوہر علیؓ کے سامنے رکھ دی، دوسری روٹی اپنے بڑے بیٹے حسنؓ کے سامنے، تیسری روٹی اپنے چھوٹے بیٹے حسینؓ کے سامنے، اور چوتھی روٹی اپنے سامنے رکھ لی۔ مسجد نبوی میں اذان ہونے لگی، سب نے روٹی سے روزہ کھولا، مگر وہ فاطمہؓ تھیں جس نے آدھی روٹی کھائی اور آدھی روٹی دوپٹے سے باندھنے لگیں۔ یہ معاملہ حضرت علیؓ نے دیکھا تو کہا کہ اے فاطمہؓ! تمہیں بھوک نہیں لگی؟ ایک ہی تو روٹی ہے اُس میں سے بھی آدھی روٹی دوپٹے میں باندھ رہی ہو؟؟؟
فاطمہؓ نے کہا: اے علیؓ! ہو سکتا ہے کہ میرے بابا جان (مُحَمَّد) کو افطاری میں کچھ نہ ملا ہو، وہ بیٹی کیسے کھائےگی جس کے باپ نے کچھ نہیں کھایا ہوگا؟؟
فاطمہؓ دوپٹے میں روٹی باندھ کر چل پڑیں، اُدھر ہمارے نبیﷺ مغرب کی نماز پڑھ کر تشریف لارہے تھے، حضرت فاطمہؓ کو دروازے پر کھڑا دیکھ کر حضور نے دریافت فرمایا: اے فاطمہؓ! تم اس وقت دروازے پر کیسے؟ فاطمہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے اندر تو لے چلیں۔ حضرت فاطمہؓ کی آنکھ میں آنسو تھے، کہا جب افطار کی روٹی کھائی تو آپ کی یاد آگئی کہ شاید آپ نے کچھ نہ کھایا ہو۔ اسلٸے آدھی روٹی دوپٹے سے باندھ کر لے آئی ہوں، روٹی دیکھ کر ہمارے نبیﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہا: اے فاطمہؓ! اچھا کیا جو روٹی لے آئی ورنہ چوتھی رات بھی تیرے بابا کی اسی حالت میں نکل جاتی، دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رونے لگے۔۔ اللہ کے رسولﷺ نے روٹی مانگی، فاطمہؓ نے کہا: بابا جان! آج میں خود اپنے ہاتھوں سے روٹی کھلاؤں گی، پھر اپنے ہاتھ سے کھلانے لگیں، جب روٹی ختم ہوگئی تو حضرت فاطمہؓ رونے لگیں۔ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کہ فاطمہ! اب کیوں روتی ہو؟؟ کہا کہ ابا جان!! کل کیا ہوگا؟ کل کون کھلانے آئےگا؟ کل کیا میرے گھر میں چولھا جلےگا؟؟
کل کیا آپ کے گھر میں چولھا جلےگا؟؟
نبیﷺ نے اپنا پیارا ہاتھ فاطمہؓ کے سر پہ رکھ کر فرمایا کہ اے فاطمہؓ! تو بھی صبر کرلے اور میں بھی صبر کرتا ہوں۔۔ ہمارے صبر سے اللہ تعالی اُمت کے گنہگاروں کو معاف کردےگا!!
کیا یہ واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ کہیں بھی موجود نہیں، نہ کسی صحیح حدیث میں، نہ کسی ضعیف روایات میں اور نہ ہی کسی من گھڑت واقعات میں اسکا ذکر ہے.
البتہ اس واقعے کو دو مختلف روایات سے جوڑ کر بنانے کی کوشش کی گئی ہے.
● پہلا واقعہ:
اس واقعے کو مختلف مفسرین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حسن اور حسین دونوں بیمار ہوگئے تو حضرت علی، حضرت فاطمہ اور ان کی خادمہ نے منت مانی کہ اگر یہ دونوں بچے ٹھیک ہوگئے تو ہم تین دن کے روزے رکھیں گے، جب دونوں بچے ٹھیک ہوگئے تو تینوں نے روزہ رکھا اور گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا، حضرت علی نے ایک یہودی سے کچھ جَو ادھار لئے اور اس کو پیس کر کچھ روٹیاں پکائی گئیں، عین افطار کے وقت ایک مسکین نے صدا لگائی تو وہ ساری روٹیاں اس مسکین کو دے دیں، اگلے دن ایک یتیم نے صدا لگائی تو ساری روٹیاں اس یتیم کو دے دیں اور تیسرے دن ایک قیدی نے صدا لگائی تو ساری روٹیاں اس قیدی کو دے دیں.
□ فقد ذكره ابن الجوزي في الموضوعات من طريق أبي عبدالله السمرقندي، عن محمد بن كثير الكوفي، عن الأصبغ بن نباتة مرفوعا، قال: مرض الحسن والحسين رضي الله عنهما فعادهما رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبوبكر، وعمر، فقال لعلي: يا أبا الحسن، أنذر إن عافى الله عزوجل ولديك أن تحدث لله عزوجل شكرا، فقال علي رضي الله عنه: إن عافى الله عزوجل ولدي صمت لله ثلاثة أيام شكرا، وقالت فاطمة مثل ذلك، وقالت جارية لهم سوداء نوبية: إن عافى الله سيدي صمت مع موالي ثلاثة أيام، فأصبحوا قد مسح الله ما بالغلامين وهم صيام، وليس عندهم قليل ولا كثير، فانطلق علي رضي الله عنه إلى رجل من اليهود، يقال له (جار بن شمر اليهودي) فقال له: أسلفني ثلاثة آصع من شعير، وأعطني جزة صوف يغزلها لك بيت محمد صلى الله عليه وسلم قال: فأعطاه، فاحتمله علي تحت ثوبه، ودخل على فاطمة رضي الله عنها وقال: دونك فاغزلي هذا، وقامت الجارية إلى صاع الشعير فطحنته، وعجنته، فخبزت منه خمسة أقراص، وصلى علي رضي الله عنه المغرب مع النبي صلى الله عليه وسلم ورجع، فوضع الطعام بين يديه، وقعدوا ليفطروا، وإذا مسكين بالباب يقول: ياأهل بيت محمد! مسكين من مساكين المسلمين على بابكم، أطعموني أطعمكم الله على موائد الجنة، قال: فرفع علي يديه…..
إلی آخرہ.
■ اس روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ روایت من گھڑت روایات میں سے ہے اس لئے کہ اس کی سند میں اصبغ بن نباتة، محمد بن كثير اور ابوعبداللہ السمرقندی انتہائی کمزور راوی ہیں جن کے بارے میں محدثین کا کلام کافی سخت ہے:
١. یحیي بن معین کہتے ہیں کہ اصبغ بن نباتہ کی کوئی حیثیت نہیں.
◇ قال يحيى بن معين: أصبغ بن نباتة لا يساوي شيئا.
٢. احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ ہم نے محمد بن کثیر کی روایات جلادی ہیں.
◇ وقال أحمد بن حنبل: حرقنا حديث محمد بن كثير.
٣. عمرو بن علی کہتے ہیں کہ میں نے ابن معین اور عبدالرحمن سے کبھی اصبغ کی روایات نہیں سنیں.
◇ وقال عمرو بن علي: ما سمعت يحيى، ولا عبدالرحمن حدثا عن الأصبغ بن نباتة بشيء قط.
٤. ابونعیم کہتے ہیں کہ ابوبکر بن عیاش کہتے تھے کہ نباتہ من گھڑت روایات بنانے والا تھا.
◇ وقال أبونعيم: قال أبوبكر بن عياش: الأصبغ بن نباتة وميثم من الكذابين.
٥. ابوحاتم کہتے ہیں کہ یہ شخص حضرت علی کی محبت میں بہت عجیب چیزیں بیان کرتا تھا.
◇ وقال أبوحاتم: فتن بحب علي بن أبي طالب رضي الله عنه فأتى بالطامات في الروايات، فاستحق من أجلها الترك.
اسی قصے کو علامہ سیوطی نے اللالی المصنوعہ میں حکیم ترمذی کے حوالے سے نقل کیا کہ انہوں نے نوادر الاصول میں اس قصے کو نقل کیا ہے کہ یہ قصہ عجیب ہے جس کو دل نہیں مانتا.
¤ أوردها السيوطي في “اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة”، وقال: قال الحكيم الترمذي في نوادر الأصول: ومن الحديث الذي تنكره القلوب حديث رواه ليث، عن مجاهد، عن ابن عباس في قوله تعالى: {يوفون بالنذر ويخافون يوما كان شره مستطيرا○ ويطعمون الطعام على حبه مسكينا ويتيما وأسيرا} [الدھر]. قال: مرض الحسن والحسين فعادهما رسول الله صلى الله عليه وسلم.
¤ علامہ ابن جوزی اور علامہ سیوطی دونوں نے اس واقعے کو من گھڑت قرار دیا ہے.
● دوسرا واقعہ:
ایک بار حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روٹی کا ایک ٹکڑا لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یہ روٹی کا ٹکڑا گھر میں تھا تو میرے دل نے آپ کے بغیر اسکے کھانے کو گوارا نہ کیا، آپ علیہ السلام نے وہ ٹکڑا لیا اور فرمایا کہ تین دن کے بعد یہ پہلا لقمہ ہے جو تیرے باپ نے کھایا ہے.
• حديث مرفوع: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ الأَهْوَازِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الصَّفَّارُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُالله بْنُ أَيُّوبَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوالْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُوهَاشِمٍ صَاحِبُ الزَّعْفَرَانِيِّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالله، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ حَدَّثَهُ قَالَ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ الله عَنْهَا بِكَسْرَةِ خُبْزٍ لِرَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا هَذِهِ الْكِسْرَةُ يَافَاطِمَةُ؟ قَالَتْ: قُرْصًا خَبَزْتُهُ وَلَمْ تَطْلُبْ نَفْسِي حَتَّى أَتَيْتُكَ بِهَذِهِ الْكِسْرَةِ. فَقَالَ: أَمَا إِنَّهُ أَوَّلُ طَعَامٍ دَخَلَ فَم أَبِيكِ مُنْذُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ.
■ اس روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے.
¤ ضعيف.
– أخرجه ابن أبي الدنيا في “الجوع” (2/1)،
– والطبراني في “الكبير” (1/37/2)،
– وأبوالشيخ في “أخلاق النبي صلي الله عليه وسلم” (ص:298)،
– والبيهقي في “الشعب” (7/315/10430) من طريق أبي الوليد الطيالسي.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور واقعہ بظاہر ان دونوں واقعات کو ملا کر بنایا گیا ہے جن میں سے پہلا واقعہ من گھڑت اور دوسرا سند کے لحاظ سے ضعیف ہے، لہذا سوال میں مذکور واقعے کو بیان کرنا اور آپ علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت کرنا درست نہیں.
البتہ دوسرے واقعے کو آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کرکے بیان کیا جاسکتا ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٩ مئی ۲۰۱۹ کراچی