تنبیہ نمبر207

بچوں کا گلیوں میں کھیلنا

● سوال
ایک شخص عبقری کی یہ پوسٹ سامنے آئی ہے کہ بچوں میں بغاوت، بیماریاں، تکالیف، مشکلات اور مسائل کی ایک وجہ گلیوں میں کھیلنا بھی ہے، اس لئے بچوں کو گلیوں میں مت کھیلنے دیں.
میرے آقا کا فرمان ہے کہ “گلیوں میں بلائیں نکلتی ہیں” لہذا بچوں کو ہر جگہ کھلائیں لیکن گلیوں میں نہیں، یہ میری زندگی کا نچوڑ ہے…
کیا یہ بات درست ہے؟ اور کیا ایسی کوئی روایت موجود ہے؟
الجواب باسمه تعالی

اس سوال کے جواب میں چند امور کو ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں:

١. سوال میں مذکور روایت کا حکم.

٢. گلی میں بچوں کا کھیلنا.

٣. عبقری کا فتنہ.

● سوال میں مذکور روایت کا حکم:

عبقری نے جس روایت کو بیان کیا ہے یہ روایت کسی بھی صحیح، ضعیف حتی کہ من گھڑت روایات کی بھی کسی کتاب میں موجود نہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ عبقری کی گھڑی ہوئی کہانی ہے تو غلط نہ ہوگا.

● گلی میں بچوں کا کھیلنا:

صحیح روایات سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام کے زمانے میں بچے گلیوں میں کھیلا کرتے تھے اور آپ علیہ السلام نے کبھی کسی بچے کو گلی میں کھیلنے سے منع نہیں فرمایا.

حضرت انس کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے مجھے ایک کام سے بھیجا اور میرا گزر کچھ بچوں پر ہوا جو بازار میں کھیل رہے تھے اتنے میں آپ علیہ السلام تشریف لائے الخ

وعن أنس رضي الله عنه قال: ((كان رسول الله صلى الله عليه وسلم مِن أحسن النَّاس خُلُقًا، فأرسلني يومًا لحاجة، فقلت: والله لا أذهب، وفي نفسي أن أذهب لما أمرني به نبيُّ الله صلَّى الله عليه وعلى آله وسلَّم، قال: فخرجت حتى أمرَّ على صبيان وهم يلعبون في السُّوق، فإذا رسول الله صلَّى الله عليه وآله وسلَّم، قابضٌ بقفاي مِن ورائي، فنظرت إليه وهو يضحك، فقال: يا أنيس! اذهب حيث أمرتك، قلت: نعم، أنا أذهب يا رسول الله. قال أنس: والله لقد خدمته سبع سنين أو تسع سنين ما علمت قال لشيء صنعتُ: لم فعلتَ كذا وكذا؟ ولا لشيء تركتُ: هلَّا فعلتَ كذا وكذا؟

ایک صحابی کہتے ہیں کہ وہ آپ علیہ السلام کے ساتھ ایک دعوت کیلئے نکلے تو دیکھا کہ حسین رضی اللہ عنہ ایک گلی میں کھیل رہے تھے، آپ علیہ السلام آگے بڑھے اور اپنی بانہیں پھیلادیں، حسین رضی اللہ عنہ ایک طرف سے دوسری طرف بھاگ رہے تھے اور آپ علیہ السلام ان کو ہنسا رہے تھے، پھر آپ علیہ السلام نے ان کو پکڑا اور فرمایا: حسین مجھ سے ہے، اللہ تعالی اس شخص سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرے.

□ أَنَّهُمْ خَرَجُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى طَعَامٍ دُعُوا لَهُ فَإِذَا حُسَيْنٌ يَلْعَبُ فِي السِّكَّةِ قَالَ: فَتَقَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَامَ الْقَوْمِ وَبَسَطَ يَدَيْهِ فَجَعَلَ الْغُلَامُ يَفِرُّ هَا هُنَا وَهَا هُنَا وَيُضَاحِكُهُ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَخَذَهُ فَجَعَلَ إِحْدَى يَدَيْهِ تَحْتَ ذَقْنِهِ وَالْأُخْرَى فِي فَأْسِ رَأْسِهِ فَقَبَّلَهُ وَقَالَ: حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ، أَحَبَّ الله مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا، حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنْ الْأَسْبَاطِ.
○ بچوں کے گھر سے نکلنے کے ممنوع اوقات:

صحیح روایات میں وارد ہے کہ آپ علیہ السلام نے رات کا اندھیرا پھیلتے وقت بچوں کو گھر میں روکنے کی ہدایت فرمائی ہے کیونکہ یہ شیطانوں کے پھیلنے کا وقت ہوتا ہے، البتہ کچھ دیر بعد وہ گھر سے نکل سکتے ہیں.

□ فقد قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا كَانَ جُنْحُ اللَّيْلِ أَوْ أَمْسَيْتُمْ فَكُفُّوا صِبْيَانَكُمْ فَإِنَّ الشَّيَاطِينَ تَنْتَشِرُ حِينَئِذٍ فَإِذَا ذَهَبَتْ سَاعَةٌ مِنْ اللَّيْلِ فَخَلُّوهُمْ. (الحديث رواه البخاري ومسلم).

علامہ نووی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد رات کا اندھیرا پھیلنے کا وقت ہے.

□ قال النووي في شرح صحيح مسلم: قَوْله: جُنْح اللَّيْل هُوَ ظَلَامه، وَيُقَال: أَجْنَحَ اللَّيْل أَيْ: أَقْبَلَ ظَلَامه. فَكُفُّوا صِبْيَانكُمْ أَيْ: اِمْنَعُوهُمْ مِنْ الْخُرُوج ذَلِكَ الْوَقْت.

علامہ الشبیھی فرماتے ہیں کہ یہ سورج غروب ہونے کا وقت مراد ہے.

□ وقال الشبيهي الإدريسي في الفجر الساطع على الصحيح الجامع: إِذَا كَانَ جُنْحُ اللَّيْلِ: أي أوله عند غروب الشمس.

مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ جب سورج غروب ہورہا ہو تو بچوں کو اور جانوروں کو گھر میں روکے رکھو یہاں تک کہ کچھ رات گذر جائے کیونکہ اس وقت شیاطین پھیلتے ہیں.

□ لَا تُرْسِلُوا فَوَاشِيَكُمْ وَصِبْيَانَكُمْ إِذَا غَابَتْ الشَّمْسُ حَتَّى تَذْهَبَ فَحْمَةُ الْعِشَاءِ فَإِنَّ الشَّيَاطِينَ تَنْبَعِثُ إِذَا غَابَتْ الشَّمْسُ حَتَّى تَذْهَبَ فَحْمَةُ الْعِشَاءِ. (رواه مسلم).

امام نووی فرماتے ہیں کہ ممانعت ہر طرح کے جانور اور انسانوں کیلئے ہے.

اور یہ ممانعت صرف مغرب اور عشاء کے درمیان کے وقت کیلئے ہے.

□ قال النووي: الْفَوَاشِي كُلّ مُنْتَشِر مِنْ الْمَال كَالْإِبِلِ وَالْغَنَم وَسَائِر الْبَهَائِم وَغَيْرهَا، وَفَحْمَة الْعِشَاء ظُلْمَتهَا وَسَوَادهَا، وَفَسَّرَهَا بَعْضهمْ هُنَا بِإِقْبَالِهِ وَأَوَّل ظَلَامه، وَكَذَا ذَكَرَهُ صَاحِب نِهَايَة الْغَرِيب، قَالَ: وَيُقَال لِلظُّلْمَةِ الَّتِي بَيْن صَلَاتَيْ الْمَغْرِب وَالْعِشَاء: الْفَحْمَة، وَلِلَّتِي بَيْن الْعِشَاء وَالْفَجْر الْعَسْعَسَة.

☆ بچوں کو مغرب کے وقت گھر سے نہ نکلنے دینے کا حکم فرض یا واجب درجے کا نہیں، بلکہ آپ علیہ السلام کا اپنی امت کیلئے پیار بھرا مشورہ ہے.

□ فعلى هذا، يبدأ وقت المنع من غروب الشمس حتى دخول وقت صلاة العشاء، فإذا ذهب هذا الوقت فلا حرج في خروج الأطفال، وهذه الأوامر الواردة في الحديث محمولة على الندب والإرشاد عند أكثر العلماء، كما نص عليه جماعة من أهل العلم، منهم: ابن مفلح في الفروع، والحافظ ابن حجر في فتح الباري.
● عبقری کا فتنہ:

گذشتہ دو سالوں میں حکیم طارق محمود (المعروف عبقری، المعروف شیخ الوظائف وغیرہ وغیرہ) سے بندہ کی دو ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ان دونوں ملاقاتوں میں بندہ نے ان سے عرض کیا کہ آپ کے یہاں من گھڑت روایات کا بہت استعمال ہے، خدارا ان سے اجتناب کریں کہ اس کی بہت سخت وعیدیں ہیں، لیکن یہ باز نہیں آئے، اور اب اس روایت کو بیان کرکے اس شخص عبقری نے یہ قدم اٹھایا کہ اس نے اپنی طرف سے احادیث میں تصرف کرکے صحیح روایات میں سے ایک غلط مفہوم نکال کر من گھڑت روایات بنانے کی بنیاد رکھ لی ہے (اللہ تعالی ان کی ہدایت نصیب فرمائے)

جو کہ ایک بہت عظیم فتنے کی بنیاد ہے… اللہ تبارک وتعالی اس کے فتنے سے سب مسلمانوں کو محفوظ رکھے.

خلاصہ کلام

سوال میں مذکور روایت بلکل من گھڑت اور صحیح روایات کے مفہوم کو توڑ کر بنائی گئی ہے، اس بنانے والے کو اللہ تبارک وتعالی کے دربار میں علانیہ توبہ کرنی چاہیئے.

تمام مسلمانوں كو چاہیئے کہ اس عبقری نامی فتنے سے اور اس کے وظائف اور کہانیوں سے دور رہیں کہ ان کے معاملات اب بہت حد تک غلط سمت جارہے ہیں

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٥ جولائی ٢٠١٩ مکہ مکرمہ

اپنا تبصرہ بھیجیں