تنبیہ نمبر209

شہد کا پیالہ اور بال

سوال: مندرجہ ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھ کر کبھی کبار گپ شپ اور مزاح فرمایا کرتے تھے۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ وہ مجلس مستقل ایک واقعہ اور قصہ بن جایا کرتی۔
ایک مرتبہ نبی کریمؐ اپنے رفقاء سیدنا ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمانؓ کی معیت میں علیؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ سیدنا علیؓ کی اہلیہ سیدہ فاطمہؓ نے شہد کا ایک پیالہ ان حضرات کی مہمان داری کی خاطر پیش کیا۔ شہد اور خوبصورت چمکدار پیالہ۔۔۔ اتفاق سے اس پیالے میں ایک بال گر گیا۔ آپؐ نے وہ پیالہ خلفائے راشدین کے سامنے رکھا اور فرمایا: آپ میں سے ہر ایک اس پیالے کے متعلق اپنی رائے پیش کرے۔
ابوبکرصدیقؓ فرمانے لگے کہ میرے نزدیک مومن کا دل اس پیالے کی طرح چمکدار ہے، اور اس کے دل میں ایمان شہد سے زیادہ شیریں ہے، لیکن اس ایمان کو موت تک باحفاظت لے جانا بال سے زیادہ باریک ہے۔
عمرؓ فرمانے لگے کہ حکومت اس پیالے سے چمکدار ہے اور حکمرانی شہد سے زیادہ شیریں ہے لیکن حکومت میں عدل وانصاف کرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
عثمانؓ فرمانے لگے کہ میرے نزدیک علم دین، اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے، اور علم دین سیکھنا شہد سے زیادہ میٹھا ہے لیکن اس پر عمل کرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
علیؓ نے فرمایا: میرے نزدیک مہمان اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے اور اس کی مہمان نوازی شہد سے زیادہ شیریں ہے اور ان کو خوش کرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
سیدہ فاطمہؓ فرمانے لگیں کہ یارسول اللہ! اگر اجازت ہو تو میں بھی کچھ عرض کروں؟ آپؐ کے اجازت دینے پر فرمانے لگیں کہ عورت کے حق میں حیا اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے، اور اس کے چہرے پر پردہ شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور غیر مرد کی اس پر نگاہ نہ پڑے یہ بال سے بھی زیادہ باریک ہے۔
کیا خوب ہی محفل تھی، جب خلفائے راشدین اپنی رائے کا اظہار کرچکے تو آپؐ کی طرف متوجہ ہوئے۔
ادھر سرکار دوعالمؐ کے لب مبارک ہلے تو زبان نبوت سے یہ الفاظ مبارک نکلے کہ معرفت اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے اور معرفت الٰہی کا حاصل ہونا اس شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اور معرفت الٰہی کے بعد اس پر عمل کرنا، بال سے زیادہ باریک ہے۔
ادھر زمین پر یہ مبارک محفل سجی تھی ادھر رب ذوالجلال سے جبریلؑ بھی اجازت لے کر آپہنچے اور فرمانے لگے کہ میرے نزدیک راہ خدا اس چمکدار پیالے سے زیادہ روشن ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور اپنا مال اور اپنی جان قربان کرنا شہد سے زیادہ شیریں اور اس پر استقامت بال سے زیادہ باریک ہے۔
جب زمین پر سجی اس محفل میں سب اپنی رائے کا اظہار کرچکے تو جبریل امین فرمانے لگے کہ یارسول! اللہ تعالیٰ بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں، فرمایا کہ جنت اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے اور جنت کی نعمتیں اس شہد سے زیادہ شیریں ہیں، لیکن جنت تک پہنچنے کے لئے پلصراط سے گذرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔ (بکھرے موتی، ص:938)
کیا یہ پورا واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور واقعہ کسی بھی مستند کتاب میں صحیح، ضعیف یا من گھڑت روایات میں نہ مل سکا، بلکہ جب روایات کی تحقیق کرنے والے ایک مستند ادارے سے اس واقعے کے بارے میں پوچھا گیا *تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں تلاش بسیار کے بعد بھی کسی کتاب میں یہ واقعہ نہیں مل سکا، لہذا یہی کہا جائےگا کہ یہ واقعہ بےاصل ہے.

□ فالحديث الذي أورده السائل الكريم لم نقف له بعد بحث طويل، فيما بين أيدينا من كتب السنة، لذا فالحديث لا أصل له. (الاسلام سوال جواب)
● اس واقعے کے قریب کا واقعہ:
تفسیر روح البیان (المعروف تفسیر حقی، مصنفہ اسماعیل حقی، متوفی 1127 ہجری)

میں اس واقعے کے قریب قریب کا واقعہ سورہ رعد میں {لَوْ اَنَّ قُرْآنًا سُیِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ} کے تحت نقل کیا ہے.

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما سے کہا کہ ہمیں علی رضی اللہ عنہ کی عیادت کیلئے جانا چاہیئے. پھر یہ تینوں احباب حضرت علی کے گھر پہنچے تو حضرت علی بہت خوش ہوئے اور اندر گھر میں سوائے شہد کے ایک پیالے کے کچھ نہیں تھا اور اس پیالے میں ایک کالا بال گرا ہوا تھا. تو ان حضرات نے اس پر اپنی اپنی رائے پیش کی:

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دین اس پیالے سے زیادہ پاک اور نورانی ہے، اور اللہ کا ذکر اس شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور شریعت پر چلنا بال سے باریک ہے.

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جنت اس پیالے سے زیادہ شفاف ہے اور اس کی نعمتیں شہد سے زیادہ میٹھی ہیں اور پل صراط بال سے باریک ہے.

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قرآن اس پیالے سے زیادہ نورانی ہے، اور تلاوت قرآن شہد سے زیادہ میٹھی ہے اور اس کی تفسیر بال سے زیادہ باریک ہے.

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مہمان اس پیالے سے زیادہ شفاف ہے، اور مہمان کا کلام شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور اس کا دل بال سے زیادہ باریک ہے.

□ ومن الحكايات اللطيفة ان عليا رضى الله عنه مرض فقال ابوبكر رضى الله عنه لعمر وعثمان رضى الله عنهما: ان عليا قد مرض فعلينا العيادة فاتوا بابه وهو يجد خفة من المرض ففرح فرحا فتموج بحر سخائه فدخل بيته فلم يجد شیئا سوى عسل يكفى لواحد فى طست وهو ابيض وانور وفيه شعر اسود. فقال ابوبكر الصديق رضى الله عنه: لا يليق الأكل قبل المقالة فقالوا: انت اعزنا واكرمنا وسيدنا فقل اولا. فقال أبوبكر: الدين انور من الطست وذكر الله تعالى احلى من العسل والشريعة أدق من الشعر. وقال عمر: الجنة أنور من الطست ونعيمها احلى من العسل والصراط ادق من الشعر. فقال عثمان رضى الله عنه: القرآن انور من الطست وقراءة القرآن أحلى من العسل وتفسيره ادق من الشعر. فقال على رضى الله عنه: الضيف انور من الطست وكلام الضيف أحلى من العسل وقلبه أدق من الشعر.
■ اس واقعے کی اسنادی حیثیت:

یہ واقعہ تفسیر روح البیان (المعروف تفسیر حقی) میں بغیر کسی سند کے منقول ہے، اور اس تفسیر کے متعلق علمائےکرام کی رائے یہی ہے کہ یہ تفسیر بھی عام تفاسیر کی طرح ہر قسم کی صحیح، ضعیف اور من گھڑت روایات سے بھری ہوئی ہے اور صحیح غلط ہر طرح کی چیزیں اس میں موجود ہیں، لہذا بغیر سند کے اس تفسیر کی کسی بات کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا.

□ هذا التفسير فوجدته يشرح الآيات، ويهتم بالمباحث اللغوية ويتعرض للإعراب (وهو صاحب الراية في ذلك) ثم يختلف إلى أسباب النزول ويأتي بالصحيح والسقيم بل الموضوع دون تعقيب، ويغلب فيه الجانب الوعظي لاسيما فصاحبنا صوفي جلد وواعظ في الجامع الكبير كما قيل عنه، ويورد الإشارات الصوفية المتكلفة، ويورد أيضاً الإسرائيليات في التفسير دون تمحيص أو تدقيق. (حاطب ليل)
● اس روایت کے متعلق دارالعلوم دیوبند کا فتوی:

دارالعلوم دیوبند نے بھی اس روایت کا مرجع تفسیر روح البیان بیان کیا ہے.

Published on: Jun 8, 2016

جواب # 65482

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 894-891 L=8/1437

مذکورہ واقعہ تفسیر روح البیان میں آیت {لَوْ یَشَاءُ اللہ لَهدَی النَّاسَ جَمِیعًا} [سورة الرعد] کے ذیل میں قدرے تغیر کے ساتھ مذکور ہے، لیکن وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت کا ذکر نہیں ہے، ممکن ہے کہ کسی دوسری کتاب میں مزید تفصیل موجود ہو، البتہ کسی صحیح مستند کتاب میں یہ واقعہ بسند ذکر نہیں کیا گیا، لہٰذا ایسے واقعات بیان کرنے سے احتراز کرنا چاہیئے کہ رسول اللہ کی جانب غلط بات منسوب کرنا بڑا گناہ اور ہلاکت کا سبب ہے.

□ روح البیان میں ہے: ومن الحکایات اللطیفة أن علیاً رضی الله عنه مرض، فقال أبوبکر رضی الله عنه لعمر وعثمان رضی الله عنهما: إن علیاً قد مرض فعلینا العیادة․․․ فدخل بیته فلم یجد شیئاً سوی عسل یکفی لواحد في طست وهو أبیض وأنور وفیه شعر أسود… فقال أبوبکر رضی الله عنه: الدین أنور من الطست وذکر الله تعالٰی أحلی من العسل، والشریعة أدق من الشعر، فقال عمر رضی الله عنه: الجنة أنور من الطست ونعیمها أحلی من العسل والصراط أدق من الشعر․ فقال عثمان رضی الله عنه: القرآن أنور من الطست وقراءة القرآن أحلی من العسل وتفسیرہ أدق من الشعر. (روح البیان: الرعد)
دار الافتاء
دار العلوم دیوبند
خلاصہ کلام

سوال میں مذکور واقعہ باوجود تلاش بسیار کے ہمیں نہ مل سکا اور نہ ہی مختلف اداروں کو مل سکا ہے، لہذا اس واقعے کو بیان کرنا اور پھیلانا درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٩ جولائی ٢٠١٩ مکہ مکرمہ

اپنا تبصرہ بھیجیں