مزدلفہ کی رات کا خاص عمل
سوال
مندرجہ ذیل روایت کی تحقیق مطلوب ہے…
ابن جوزی کی مثیر العزم میں ہے کہ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جو شخص شبِ بقرعید (مزدلفہ کی رات) دو رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پندرہ مرتبہ، سورہ اخلاص پندرہ مرتبہ، سورہ فلق پندرہ مرتبہ، سورہ ناس پندرہ مرتبہ پڑھے، سلام کے بعد آیةالکرسی تین مرتبہ پڑھے اور استغفراللہ پندرہ مرتبہ پڑھے، اللہ پاک اسکا نام اہلِ جنت میں کردےگا۔ کھلے اور چھپے اسکے سب گناہ معاف کردےگا اور ہر آیت جو اس نے پڑھی ہے اسکے بدلے حج اور عمرے کا ثواب ملےگا، اور خاندان اسماعیل علیہ السلام کے ساٹھ غلاموں کے آزاد کرنے کے برابر ثواب ملےگا اور اگر اس دن کے اور اگلے جمعے کے درمیان انتقال کرگیا تو شہید کی موت ہوگی۔ (القری، اتحاف السادہ) شمائل کبری مفتی ارشاد صاحب
کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت ابن جوزی کی کتاب مثیر العزم الساکن الی اشرف الاماکن سے منقول ہے.
ابن جوزی اپنی سند سے اس روایت کو نقل کرتے ہیں:
أخبرنا محمد بن أبى منصور قال أخبرنا محمد بن على النرسى قال أخبرنا محمد بن على بن عبدالرحمن قال أخبرنا محمد بن أبي الجراح قال أخبرنا ابي قال ثنا إسحاق بن أحمد قال ثنا أحمد بن محمد بن غالب قال ثنا الوليد بن مسلم عن عبدالرحمن بن يزيد بن قاسم بن عبدالرحمن عن أَبِي أُمَامَةَ مَرْفُوعًا: مَنْ صَلَّى لَيْلَةَ النَّحْرِ رَكْعَتَيْنِ، يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِ: فَاتِحَةِ الْكِتَابِ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً، وَقُلْ هُوَ الله أَحَدٌ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً، وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً، وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً، فَإِذَا سَلَّمَ قَرَأَ آيَةَ الْكُرْسِيِّ ثَلاثَ مَرَّاتٍ، وَيَسْتَغْفِرُ الله خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً، جَعَلَ الله اسْمَهُ فِي أَصْحَابِ الْجَنَّةِ وَغَفَرَ لَهُ ذُنُوبَ السِّرِّ وَالْعَلانِيَةِ، وَكَتَبَ لَهُ لِكُلِّ آيَةٍ قَرَأَهَا حَجَّةً وَعُمْرَةً، وَكَأَنَّمَا أَعْتَقَ سِتِّينَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، فَإِنْ مَاتَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الأُخْرَى مَاتَ شَهِيدًا.
اس روایت کی اسنادی حیثیت
“الآثار المرفوعة فى الأخبار الموضوعة” میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اس کی سند پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی ہے
احمد بن محمد بن غالب (غلام خلیل
اس راوی کے بارے میں محدثین کا کلام کافی سخت ہے.
١. ابن جوزی نے کتاب الموضوعات میں اس روایت کو نقل کیا اور فرمایا کہ یہ من گھڑت روایت ہے اور غلام خلیل روایت گھڑتا تھا
◇ أَخْرَجَهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ، بِسَنَدٍ فِيهِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ غَالِبٍ غُلامُ خَلِيلٍ، وَقَالَ: مَوْضُوعٌ وَهُوَ وَضَّاعٌ. وَأَقَرَّهُ عَلَيْهِ السُّيُوطِيُّ، وَابْنُ عِرَاقٍ، وَغَيْرُهُمَا.
٢. غلام خلیل بغداد کے بڑے عابدوں میں سے تھا، ابن عدی کہتے ہیں کہ ابوعبداللہ نہاوندی کہتے ہیں کہ میں نے غلام خلیل سے پوچھا کہ یہ روایات کہاں سے بیان کرتے ہو؟ تو اس نے کہا کہ ہم نے یہ روایات اسلئے بنائی ہیں تاکہ لوگوں کے دل نرم کرسکیں
◇ وكان من كبار الزهاد ببغداد. قال ابن عَدِي: سمعت أباعبدالله النهاوندي يقول: قلت لغلام خليل: ما هذه الرقائق التي تحدث بها؟ قال: وضعناها لنرقق بها قلوب العامة.
٣. ابوداود کہتے ہیں کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بغداد کا دجال ہے
◇ وقال أبُوداود: أخشى أن يكون دجال بغداد.
٤. امام حاکم کہتے ہیں کہ ابوبکر بن اسحاق کہتے تھے کہ غلام خلیل کے جھوٹے ہونے میں شک نہیں
◇ وقال الحاكم: سمعت الشيخ أبابكر بن إسحاق يقول: أحمد بن محمد بن غالب ممن لا أشك في كذبه.
٥. ابوداود کہتے ہیں کہ اس کی چار سو(٤٠٠) روایات کی سند اور متن جھوٹے ہیں
◇ وقال أبُوداود: قد عرض علي من حديثه فنظرت في أربع مِئَة حديث أسانيدها ومتونها كذب كلها.
٦. امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ ثقہ راویوں سے من گھڑت روایات نقل کرتا تھا
◇ وقال الحاكم: روى عن جماعة من الثقات أحاديث موضوعة.
مزدلفہ کی تہجد
مزدلفہ کی رات حج کی عظیم ترین راتوں میں سے ہے اور اس کا قیام واجب ہے، لیکن کیا آپ علیہ السلام نے اس رات تہجد کی نماز ادا کی ہے؟
١. حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے مغرب اور عشاء کو جمع کیا اور پھر آپ علیہ السلام فجر تک لیٹے رہے
□ ففي حديث جابر بن عبدالله أن الرسول صلى الله عليه وسلم جمع بين المغرب والعشاء، ثم اضطجع حتى طلع الفجر، وحديث جابر في صحيح مسلم.
٢. ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے مغرب اور عشاء کو مزدلفہ میں جمع کیا اور ان دونوں نمازوں کے بعد کوئی نماز ادا نہیں کی
□ وفي حديث ابن عمر وهو في البخاري وفي صحيح مسلم أيضاً أن الرسول صلى الله عليه وسلم جمع بين المغرب والعشاء ولم يصلي على أثر كل صلاة شيئاً.
اسی لئے علمائےکرام نقل کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام سے اس رات میں نفلی عبادت ثابت نہیں.
نوٹ
آپ علیہ السلام چونکہ مسافر تھے اسلئے آپ علیہ السلام نے سنتیں ادا نہیں فرمائیں، البتہ جو لوگ مقیم ہوں وہ سنتوں کا اہتمام فرمائیں.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور روایت سند کے لحاظ سے بلکل بھی درست نہیں اور نہ ہی مزدلفہ کی رات آپ علیہ السلام سے کوئی خاص عمل ثابت ہے، البتہ اگر کوئی شخص کچھ انفرادی اعمال کرنا چاہے تو ممانعت نہیں، لیکن کسی خاص نماز یا عمل کا کرنا اور اس کو آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کرکے پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٧ اگست ٢٠١٩ مکہ مکرمہ