جبلِ رحمت کی اہمیت
سوال
عرفات میں موجود پہاڑی کو جبلِ رحمت کہا جاتا ہے، حاجی بہت شوق سے اس جگہ پر آتے ہیں اور دو رکعت نماز پڑھتے ہیں، اسی طرح اس پر چڑھنے کو اور وہاں دعا مانگنے کو سنت قرار دیا جاتا ہے، نیز آپ علیہ السلام کے حجة الوداع کے خطبے کو بھی اس پہاڑی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے…
کیا یہ تمام باتیں درست ہیں؟
الجواب باسمه تعالی
اس سوال کے جواب میں چند امور کو ذکر کرنا ضروری ہے:
جبلِ رحمت
اس پہاڑی کا نام جبل رحمت لوگوں کے درمیان مشہور ہوگیا ہے، اس نام پر کوئی شرعی دلیل موجود نہیں اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس کو جبل رحمت کہا جاتا تھا.
جبل رحمت مکہ مکرمہ سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے
□ المكان جبل عرفات: هو جبل يقع علي بُعد 20 كيلو متر شرقي مكة.
شیخ بکر بن عبداللہ ابوزید لکھتے ہیں کہ اس پہاڑ کو جبل رحمت کہنا سنت سے ثابت نہیں، بلکہ عرب اس پہاڑ کو الال کہتے تھے، سب سے پہلے ناصر خسرو نے اپنے سفر نامے میں اس پہاڑ کو جبل رحمت لکھا، پھر اس کے بعد اس کی شہرت جبل رحمت سے ہونے لگی
□ ويقول الشيخ بكر بن عبدالله أبوزيد: هذا الجبل لم يأت له ذكر قط في السنة المشرفة، وبالتتبع حصل أن اسمه الذي سمته به العرب هو إلال على وزن (سحاب) وعليه الأكثر أو على وزن (هلال) كما في كثير من أخبار العرب وأشعارها… وأقدم نص وقفت عليه فى ذكره باسم (جبل الرحمة) هو في رحلة ناصر حسرو (المتوفى 444ھ) المسماة “سفرنامة” ثم هو منتشر بعد في كتب الفقهاء والعلماء من أهل المذاهب الأربعة وغيرهم.
تاریخ میں اس پہاڑ کے دو نام ہیں: جبل الال اور جبل عرفہ
□ ويؤكد الشيخ أبوزيد: أنه لا يثبت لهذا الجبل إلا اسمان هما: (جبل إلال) وهو المعروف في لسان العرب شعراً ونثراً، و(جبل عرفة) وهو مروي عن ابن عباس رضي الله عنه.
جبل رحمت کے مختلف نام
اس پہاڑی کے کچھ اور بھی نام تاریخ میں ملتے ہیں.
□ ولجبل الرحمة أسماء كثيرة، منها: جبل القرين، جبل الدعاء، جبل الرحمة، جبل اِلآل (على وزن هِلال)، وجبل التوبة.
آپ علیہ السلام کا اس پہاڑی پر چڑھنا
سوال:* کیا آپ علیہ السلام اس پہاڑی پر چڑھے تھے؟
جواب:* آپ علیہ السلام سے اس پہاڑی پر چڑھنا ثابت نہیں بلکہ آپ علیہ السلام نے اس پہاڑی کے ایک جانب چھاؤں میں کھڑے ہو کر دعا فرمائی تھی.
□ ويقول الشيخ أحمد المزروع القاضي: إن الرسول صلى الله عليه وسلم لم يصعد الجبل ولم ينقل عنه صلى الله عليه وسلم انه صعد نهائياً، بل وقف بالقرب من الجبل.
استاد احمد البنانی کہتے ہیں کہ اس پہاڑی کا نام جبل رحمت نہیں ہے بلکہ اس کا نام جبل عرفات ہے اور آپ علیہ السلام اس پہاڑی کے پاس کھڑے ہوئے تھے، لہذا پہاڑی پر چڑھنا سنت نہیں
□ أما الأستاذ الدكتور أحمد البناني أستاذ العقيدة والأديان بكلية الدعوة وأصول الدين بجامعة أم القرى فيقول: إن هذا الجبل في الأصل لا يسمى جبل الرحمة وإنما هو جبل عرفات، وقد بين النبي المصطفى صلى الله عليه وسلم أن الوقوف عند الجبل ليس فرضاً ولا واجباً، إنما سنة لمن استطاع، وقد وقف عليه.
آپ علیہ السلام نے پہاڑ کی بعض بڑی چٹانوں کی چھاؤں میں دعا فرمائی تھی اور فرمایا کہ میں نے یہاں وقوف کیا ہے اور پورا عرفہ (یعنی پورا میدانِ عرفات) وقوف کی جگہ ہے
□ والذي ثبت أنه صلى الله عليه وسلم وقف تحت هذا الجبل عند الصخرات الكبار، وقال: (وقفت هاهنا وعرفة كلها موقف، وارفعوا عن بطن عرنة).
آپ علیہ السلام کے قیام کی جگہ
١. بعض لوگ کہتے ہیں کہ جبل رحمت کے نچلے حصے میں ایک بڑی چٹان ہے اس کے پاس آپ علیہ السلام کھڑے ہوئے تھے
□ وتقع أسفل جبل عرفات صخرة شكلها مميز يقال: إن الرسول الكريم استظل بها في حجةالوداع، وتقع الصخرة الشهيرة أسفل جبل عرفات، أو جبل “الرحمة” وتمتد أمامها مساحة منخفظة، كما أن الصخرة تشرف على المكان، حيث ترجح مصادر تاريخية أنها المكان الذي وقف فيه الرسول.
٢. بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس پہاڑی کے پاس ایک مسجد ہے اسی جگہ آپ علیہ السلام نے دعا مانگی تھی
□ كما أن في عرفات مسجد الصخرات، وهو أسفل جبل الرحمة عـلى يمين الصاعد إليه، وهو مرتفع قليلاً عن الأرض يحيط به جدار قصير وفيه صخرات كبار وقف عندها رسول الله صلى الله عليه وسلم عشية عرفة وهو على ناقته القصواء.
٣. استاد عدنان کہتے ہیں کہ جس جگہ پر آپ علیہ السلام نے قیام فرمایا تھا بعينه اسی جگہ کا تعین کرنا تو کافی مشکل ہے، البتہ اتنی بات ہے کہ اس پہاڑی کے نچلے حصے میں آپ علیہ السلام نے قیام فرمایا تھا
□ وأوضح أستاذ الحضارة الإسلامية بجامعة أم القرى الدكتور عدنان محمد الحارثي الشريف لـ”العربية.نت”، أن توثيق الصخرة ضعيف في بعض الأجزاء من التاريخ، وحول المكان والصخرة، قال الحارثي إن المصادر تشير لـ “حصيات أسفل جبل عرفة.
امام نووی، ابن تیمیہ وغیرہ نے لکھا ہے کہ اس پہاڑی پر چڑھنے کو حج کا حصہ سمجھنا بدعت ہے
□ ولذا قال كثير من العلماء: إن صعود هذا الجبل في الحج على وجه النسك بدعة، منهم الإمام النووي، وشيخ الإسلام ابن تيمية، والشيخ صديق خان.
آپ علیہ السلام نے خطبہ کہاں دیا؟
آپ علیہ السلام نے حجة الوداع میں نمرہ نامی پہاڑ پر قیام کیا.
□ “نمرة” (بفتح النون وكسر الميم وسكونها) فنمرة هو جبل نزل به النبي صلى الله عليه وسلم يوم عرفة في خيمة.
شیخ ابن عثیمین لکھتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے نمرہ پہاڑی پر قیام کیا اور پھر زوال کے بعد آپ علیہ السلام وادی عرنہ آئے، وہاں آپ نے ظہر اور عصر کی نماز ساتھ ملا کر ادا فرمائی اور پھر آپ نے عرفات میں قیام فرمایا
□ قال الشيخ محمد بن عثيمين: ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه مكث يوم عرفة بنمرة (وهو موضع قبل عرفة) حتى زالت الشمس (وهو أول وقت الظهر)، ثم ركب، ثم نزل في بطن وادي عرنة (وهو واد بين نمرة وعرفات)، فصلى الظهر والعصر ركعتين ركعتين جمع تقديم، بأذان واحد وإقامتين، ثم ركب حتى أتى موقفه فوقف، وقال: وقفت هاهنا وعرفة كلها موقف، فلم يزل واقفا مستقبل القبلة رافعًا يديه يذكر الله ويدعوه حتى غربت الشمس.
دوسری ہجری میں خلافت عباسی کے زمانے میں اس خطبے کی جگہ مسجد تعمیر کی گئی جس میں وقتا فوقتا اضافہ کیا جاتا رہا یہانتک کہ اب اس میں تین لاکھ افراد نماز پڑھ سکتے ہیں
□ ثم في أول عهد الخلافة العباسية في منتصف القرن الثاني الهجري بُنِيَ مسجد في موضع خطبة الرسول صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع هو مسجد نمرة، وتوالت بعدها توسعاته على مر التاريخ وصولاً للوقت الحالي؛ فأصبحت مساحته (124) ألف متر مربع، مؤلف من طابقين مُجَهّزين بنظام للتبريد والمرافق الصحية؛ حيث يتسع لأكثر من (300) ألف من المصلين.
خلاصہ کلام
میدانِ عرفات میں وقوف کرنا حج کا اہم رکن ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا: “الحج عرفة” کہ حج تو عرفے کا نام ہے، آپ علیہ السلام نے ایک مخصوص جگہ قیام فرمایا لیکن آپ علیہ السلام نے پورے عرفات کو موقف قرار دیا
آپ علیہ السلام نے فرمایا: “وقفت ههنا، والعرفة كلها موقف”، لہذا پورے عرفات میں کہیں بھی قیام اور عبادت میں مشغول ہونا کافی ہے.
جبلِ رحمت (کے نام سے مشہور اس) پہاڑی پر جانا یا وہاں دو رکعت نماز پڑھنا کسی بھی دلیل سے ثابت نہیں، لہذا اس کی کوشش کرنا اور پہاڑ پر چڑھنے کو عبادت سمجھنا شرعا غلط ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٩ اگست ٢٠١٩ (بمقام: مِنَی)