تنبیہ نمبر22

عورتوں کے فضائل

سوال: وٹس ایپ پر چلنے والی ایک پوسٹ جس میں خواتین کے بعض فضائل اور مختلف حالات اور أعمال پر مختلف أجر و ثواب کا تذکرہ موجود ہے. ان ہی فضائل میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
  1. عورت خدا کا دیا ہوا ایک نایاب تحفہ ہے۔
  2. حاملہ عورت کی دو رکعت نماز عام عورت کی ۷۰ رکعت سے نماز سے بڑھ کر ہے۔
  3. شوہر پریشان گھر آۓ اور بیوی اسے تسلی دے تب اسے جہاد کا ثواب ملتا ہے۔
  4. جو عورت اپنے بچے کے رونے کی وجہ سے سو نہ سکے، اس کو ۷۰ غلام آزاد کرنے کاثواب ملتا ہے۔
  5. شوہر اور بیوی ایک دوسرے کومحبت کی نظر سے دیکھیں تو اللہ انہیں محبت کی نظر سے دیکھتا ہے۔
  6. جو عورت اپنے شوہر کو اللہ کی راہ میں بھیجے، وہ جنت میں اپنے شوہر سے ۵۰۰ سال پہلے جائے گی۔
  7. جو عورت آٹا گوندھتے وقت “بسم اللہ” پڑہے تو اس کے رزق میں برکت ڈال دی جاتی ہے۔
  8. جو عورت غیر مرد کو دیکھتی ہے اللہ اس پر لعنت بھیجتا ہے۔
  9. جب عورت اپنے شوہر کے کہے  بغیراسکے پیردباتی ہے تو اسے ۷۰ تولہ سونا صدقہ کرنے کا ثواب ملتا ہے۔
  10. جو پاک دامن عورت روزے کی پابندی کرے اور جو شوہر کی خدمت کرے اس کے لئےجنت کےآٹھوں دروازےکھول دیئے جاتے ہیں۔
  11. عورت کو ایک بچہ پیدا کرنے پر ۷۵ سال کی نماز کا ثواب اور ہر ایک درد پر ایک حج کا ثواب  ملتاہے۔
  12. باریک لباس پہنے والی اور غیر مرد سے ملنے والی عورت کبهى جنت میں نہیں جائے گی۔ 
  13. جب کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے تو اس کو اللہ کے راستے میں جہاد کا اجر ملتا ہے.
  14. حاملہ عورت کو دن میں روزہ رکھنے اور رات بھر عبادت کا اجر ملتا ہے.
  15. جب اس کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسکو کہا جاتا ہے کہ اے اللہ کی بندی جاؤ تمہارےسارے گناہ معاف ہوچکے ، نئے سرے سے اعمال شروع کرو.
  16. عورت جب اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو ہر گہونٹ کے بدلے حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی اولاد میں سے ایک غلام آزاد کرنے کا اجر ملتا ہے.
  17. دودھ کے ہر گھونٹ پر ایک نیکی ملتی ہے.
  18. جب میاں بیوی جنابت کا غسل کرتے ہیں تو اللہ رب العزت فرشتوں کو گواہ  بنا کر فرماتے ہیں کہ میں نے ان کی مغفرت کردی.
  19. جب کوئی عورت اپنے گھر میں کام کرتی ہے تو اللہ تعالی اس کو نظر رحمت سے دیکھتے ہیں.
  20. برکت والی ہے وہ عورت جس کی پہلی اولاد لڑکی ہو.
روایت کی تحقیق مطلوب ہے…  
الجواب باسمه تعالی

یہ تمام فضائل کسی بھی صحیح روایت سے ثابت نہیں،  بلکہ اکثر باتیں تو موضوع روایات میں بھی تلاش کے باوجود نہیں ملتیں.

حوالہ:

مدینے میں ایک عورت حولاء (جو کہ عطر فروش) تھی،  اس نے حضرت عائشہ سے اپنے شوہر کی شکایت کی تو آپ علیہ السلام نے عورتوں کے فضائل بیان کئے:

١.  جو عورت گھر کا کام کرتی ہے تو جو چیز بھی اٹھاتی ہے اور رکھتی ہے تو اللہ تعالی اس کو نظرِ رحمت سے دیکھتے ہیں.

٢.  جب عورت حاملہ ہوتی ہے تو اس کو دن بھر روزہ رکھنے اور رات بھر عبادت کرنے کا اجر ملتا ہے.

٣.  جب بچے کو دودھ پلاتی ہے تو ہر بار دودھ پلانے پر ایک غلام آزاد کرنے کا اجر ملتا ہے.

٤.  جب دودھ پلانے کا وقت ختم ہوجاتا ہے تو آسمان سے آواز دی جاتی ہے کہ اے عورت! پھر سے عمل کر کہ گذشتہ سارے معاف ہوچکے.

٥.  جو مرد پیار سے اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑے اس کو دس نیکیاں ملتی ہیں اور جب معانقہ کرتا ہے تو بیس نیکیاں اور جب بیوی کا بوسہ لیتا ہے تو ایک سو بیس نیکیاں ملتی ہیں.

٦.  اور جب صحبت کرتا ہے اور پھر غسل کرنے جاتا ہے تو جس بال پر بھی پانی گذرتا ہے تو ہر بال کے بقدر دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور دس گناہ معاف کئے جاتے ہیں.

٧.  اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس بندے کو دیکھو اس ٹھنڈی رات میں اٹھا اور جنابت کا   غسل کیا، تم گواہ رہو کہ میں نے اس کی مغفرت کردی.

كانت امرأة عطارة يقال لها الحولاء، فجاءت إلى عائشة فقالت: يا أم المؤمنين! نفسي لك الفداء، إني أزين نفسي لزوجي كل ليلة حتى كأني العروس أزف إليه فأجيء فأدخل في لحاف زوجي فأبتغي بذلك مرضات ربي فيحول وجهه عني فأستقبله فيعرض عنی، ولا أراه إلا قد أبغضني، فقالت لها عائشة: لا تبرحي حتى يجيء رسول اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فلما جاء قال: إني لأجد ريح الحولاء؛ فهل أتتكم وهل ابتعتم منها شيئا؟ قالت عائشة: لا، ولكن جاءت تشكو زوجها، فقال: مالك ياحولاء؟ فذكرت له نحو ما ذكرت لعائشة، فقال: اذهبي أيتها المرأة فاسمعي وأطيعي لزوجك، قالت: يارسولَ اللهِ! فما لي من الأجر؟ فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ للحولاء: ليس من امرأة ترفع شيئا من بيتها من مكان أو تضعه من مكان تريد بذلك الصلاح إلا نظر الله إليها، وما نظر الله إلى عبد قط فعذبه، قالت: زدني يارسولَ اللهِ! قال: ليس من امرأة من المسلمين تحمل من زوجها إلا كان لها كأجر الصائم القائم المخبت؛ فإذا أرضعته كان لها بكل رضعة عتق رقبة، فإذا فطمته نادى مناد من السماء: أيتها المرأة! استأنفي العمل فقد كفيت ما مضى، فقالت عائشة: يارسولَ اللهِ! هذا للنساء فما للرجال؟ فقال: ما من رجل من المسلمين يأخذ بيد امرأته يراودها إلا كتب الله له عشر حسنات، فإذا عانقها فعشرون حسنة، فإذا قبلها فعشرون ومئة حسنة، فإذا جامعها ثم قام إلى مغتسله لم يمر الماء على شعرة من جسده إلا كتب الله له بها عشر حسنات وحط عنه عشر خطيئات، وإنَّ اللهَ عزَّوجلَّ ليباهي به الملائكة فيقول: انظروا إلى عبدي قام في هذه الليلة الشديد بردها فاغتسل من الجنابة مؤمنا أني ربه أشهدكم أني قد غفرت له.
اس واقعے کی اسنادی حیثیت:

ابن عراق نے اس روایت کو تنزیه الشریعة میں نقل کیا ہے اور اس پر من گھڑت ہونے کا حکم لگایا ہے.

قال فيه الإمام البخاري (كما في “التاريخ الكبير” 5/441): عبيد بن إسحاق أبو عبدالرحمن العطار الكوفي مات سنة عشرة، عنده مناكير.
– الراوي: أنس بن مالك.
– المحدث: ابن عراق الكناني.
– المصدر: تنزيه الشريعة.
– الصفحة أو الرقم: 2/203
– خلاصة حكم المحدث: البلاء من زياد بن ميمون.

علامہ ابن حجر نے اس روایت کو الاصابة میں نقل کرکے فرمایا: “اسنادہ واہ جدا” یعنی کہ اس کی سند انتہائی کمزور ہے.

شیعوں کی مشہور کتاب “بحار الانوار” میں مجلسی نے نقل کیا ہے کہ آپ علیہ السلام نے أم سلمہ سے فرمایا:

:٣.  ایک اور جگہ فرمایا

١.  جب عورت حاملہ ہوتی ہے تو اس کو اللہ کے راستے میں جان ومال خرچ كرنے کا اجر ملتا ہے.

٢.  جب بچے کی ولادت ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ پھر سے عمل شروع کر، گذشتہ سارے معاف ہوگئے.

٣.  اور جب دودھ پلاتی ہے تو ہر بار پر بنواسماعیل کے ایک غلام آزاد کرنے کا اجر ملتا ہے.

رواه المجلسي في “بحار الأنوار” (100/252) فقال: فقال صلى الله عليه وآله وسلم: يا أم سلمة! إن المرأة إذا حملت كان لها من الأجر كمن جاهد بنفسه وماله في سبيل الله عزوجل، فإذا وضعت قيل لها: قد غفر لك ذنبك فاستأنفي العمل، فإذا أرضعت فلها بكل رضعة تحرير رقبة من ولد إسماعيل.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:

اس روایت کا شیعوں کی کتب میں بغیر سند کے منقول ہونا ہی اس کے من گھڑت ہونے کیلئے کافی ہے.

اس مضمون کی ایک اور روایت:
أخرجه الحسن ابن سفيان وابن عساكر.
وقال الألباني:  موضوع.
ایک صحابی کا قول:

سوال میں مذکور نکات میں سے آخری فضیلت اگرچہ حدیث نہیں لیکن یہ ایک صحابی کا قول ہے.

اس واقعے کے ضعف کی بڑی وجہ عبید بن اسحاق العطار ہے. لیکن بعض کتابوں میں اس واقعے کی ایک اور سند بیان کی جاتی ہے کہ اس واقعے کو عثمان بن زفر نے عاصم بن محمد سے نقل کیا ہے.

“إن من يمن المرأة تبكيرها بالانثى قبل الذكر”.
هذا الأثر جاء في كلام بعض أهل العلم، وقد روي مرفوعاً ولم يثبت؛ بل هو شديد الضعف؛ وقد حكم بعض أهل العلم بوضعه.
ومع ذلك تساهل بعض أهل العلم في إيراده.
قال القرطبي في تفسيره: “وقال واثلة بن الاسقع: إن من يمن المرأة تبكيرها بالانثى قبل الذكر، وذلك أن الله تعالى قال: {يهب لمن يشاء إناثا ويهب لمن يشاء الذكور} فبدأ بالاناث”.

١.  جب عورت حاملہ ہوتی ہے اور اسکا شوہر اس سے راضی ہو تو اس کو ساری رات عبادت کرنے اور دن بھر روزہ رکھنے کا اجر ملتا ہے.

٢.  اور جب بچے کی ولادت ہوتی ہے تو زمین آسمان والے نہیں جانتے کہ اسکو کتنا اجر ملنے والا ہے.

٣.  اور جب بچے کو دودھ پلاتی ہے تو اسکو ہر قطرے پر ایک نیکی ملتی ہے.

اس سند میں ابن ابی الدنیا کے استاد محمد بن الحسین ثقہ ہیں لیکن ان کے استاد عثمان بن زفر مجہول الحال راوی ہیں، اگرچہ بعض محدثین نے ان کو صدوق قرار دیا ہے.

قال أبو عبدالباري: في كلام أبي حاتم بيان سبب الإنكار ألا وهو تفرد عبيد بن إسحاق به مع ضعفه، لكنه لم يتفرد به، بل تابعه عثمان بن زفر (وهو صدوق كما في التقريب).
قال ابن أبي الدنيا عقب الرواية السابقة: قال محمد بن الحسين (شيخه في الحديث) فسألت عثمان ابن زفر عن هذا الحديث فقال: سمعته من عاصم بن محمد.
ومحمد بن الحسين هو أبوشيخ البرجلاني، أورده الذهبي في الميزان (3/522) فقال: أرجو أن يكون لا بأس به، ما رأيت فيه توثيقا ولا تجريحا، لكن سئل عنه إبراهيم الحربي فقال: ما علمت إلا خيرا.
وتعقبه الحافظ في اللسان (5/137) فقال: وما لذكر هذا الرجل الفاضل الحافظ (يعني في الضعفاء) وقد ذكره ابن حبان في الثقات (8/88، رقم:15338).
خلاصہ کلام

یہ تمام فضائل غیرمستند، غیرمعتبر اور ناقابل بیان ہیں، جبکہ صحیح روایات میں خاتون کے بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں، البتہ فضیلت نمبر ٢٠ اگرچہ حدیث سے ثابت نہیں لیکن بعض صحابہ اور تابعین کے اقوال سے ثابت ہے.

ایک ضروری وضاحت:

تنبیہات سلسلہ نمبر ٢٢ میں چونکہ ایک پوسٹ کا جواب دیا گیا تھا لہذا اس میں اکثر باتوں کے موضوع ہونے کی وجہ سے پورے پر وضع کا حکم لگا کر اس پوسٹ کو من گھڑت کہا گیا، اس لئے کہ اس میں سے ایک آدھ فضیلت کا ثبوت اس پوری پوسٹ کے صحیح ہونے کیلئے کافی نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

اپنا تبصرہ بھیجیں