تنبیہ نمبر 221

طواف کیلئے وضو کا حکم

سوال
ایک صاحب کا بیان سنا جس میں وہ یہ فرما رہے تھے کہ طواف کیلئے وضو ضروری نہیں بلکہ بہتر ہے اور یہی امام ابوحنیفہ کا مسلک بھی ہے، لہذا اگر کوئی شخص بغیر وضو طواف کرلے تو اس کا طواف درست ہے…
اس مسئلے کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی

واضح رہے کہ طواف کیلئے وضو کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں میں علمائےکرام کے تین مذاہب ہیں:

١. پہلا قول

طواف کیلئے وضو شرط (فرض) ہے. یہ قول امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمهم اللہ کا ہے.

٢. دوسرا قول

طواف کیلئے وضو فرض نہیں بلکہ واجب ہے، یہ قول امام ابوحنیفہ رحمه اللہ کا ہے.

٣. تیسرا قول

طواف کیلئے وضو سنت ہے، یہ قول علامہ ابن تیمیہ اور شیخ ابن عثیمین کا ہے.

١- پہلے قول والوں کے دلائل

جمہور علماء فرماتے ہیں کہ طواف کیلئے وضو شرط ہے اور وضو کے بغیر طواف درست نہیں.

١. پہلی دلیل

آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ طواف بھی نماز ہی کی طرح ہے، بس (فرق یہ ہے کہ) طواف میں بات چیت کی اجازت ہوتی ہے نماز میں نہیں، پس طواف میں اگر بات کرو تو صرف خیر کی بات کرو.

□ فقد ذهب جُمْهور الفُقهاء من المالكيَّة والشافعيَّة، (والحنابِلة في إحدى الروايتَين) إلى عدم جواز الطَّواف بلا طهارة؛ لأنَّ الطَّهارة شرطٌ في صحَّة الطَّواف، واحتجُّوا بِحديث: الطَّواف حوْل البَيت مثلُ الصَّلاة، إلَّا أنَّكم تتكلَّمون فيه، فمَنْ تكلَّم فيه، فلا يتكلَّمنَّ إلاَّ بِخير.
٢. دوسری دلیل

آپ علیہ السلام کے عمل سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ علیہ السلام نے طواف سے پہلے وضو فرمایا.

□ ثبت في الصحيحين عن عائشة رضي الله عنها قالت: لما أراد صلى الله عليه وسلم أن يطوف توضأ. وقد قال صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “خذوا عني مناسككم”. (رواه مسلم:1297).
٣. تیسری دلیل

آپ علیہ السلام نے حضرت عائشہ کو حکم فرمایا کہ پاک ہونے سے پہلے طواف مت کرنا.

□ ثبت في الصحيحين أن النبي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال لعائشة لما حاضت: “افْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي”.
اس قول کا خلاصہ

جمہور علمائےکرام کے نزدیک طواف کیلئے مکمل پاکی شرط ہے (یعنی حدث اصغر اور حدث اکبر سے پاک ہونا ضروری ہے)، چاہے طواف فرض ہو، واجب ہو یا نفلی ہو، پس جس شخص نے بغیر وضو کے طواف کیا اس کا طواف شمار ہی نہیں کیا جائےگا.

□ جمهور الفقهاء من المالكية والشافعية والحنابلة يرون أن الطهارة من الأحداث ومن الأنجاس شرط لصحة الطواف مطلقًا، سواء كان طواف القدوم أو الزيارة أو الوداع، فإذا ابتدأ الطواف فاقدًا الطهارة فطوافه باطل لا يعتد به.
[راجع: “الشرح الكبير” للدردير (2/32، ط: دار الفكر)،
و”نهاية المحتاج” للرملي (3/279، ط: دار الفكر)،
و”مغني المحتاج” للخطيب الشربيني (2/244، ط: دار الكتب العلمية)،
و”الإنصاف” للمرداوي (4/17، ط: دار إحياء التراث العربي).

اسی طرح امام مالک اور احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اگر طواف کے دوران وضو ٹوٹ گیا تو گذشتہ کئے ہوئے تمام چکر ضائع ہوگئے، لہذا اب نئے سرے سے دوبارہ طواف شروع کرے

□ وقال المالكية والحنابلة: مَن أحدث أثناء طوافه فإنه يستأنف طوافًا جديدًا ولا يبني على ما طاف. ففي “الشرح الكبير” للإمام الدردير عند الكلام على الطواف (2/31، ط: دار الفكر): وبَطَلَ (أي الطواف) بحدثٍ حصل أثناءه ولو سهوًا (بناءٌ) فاعل بطل، وإذا بطل البناء وجب استئناف الطواف إن كان واجبًا أو تطوعًا وتعمد الحدث.
٢- دوسرے قول کی دلیل

امام ابوحنیفہ رحمه اللہ طواف کیلئے وضو کو شرط قرار نہیں دیتے البتہ واجب ضرور قرار دیتے ہیں، لہذا بغیر وضو کئے گئے طواف کو طواف تو کہا جاسکتا ہے لیکن واجب چھوڑ دینے کی وجہ سے یا تو وہ اس طواف کو دہرادے یا پھر دم دے دے.

□ وذهب الحنفية إلى أن الطهارة ليست شرطًا لصحة الطواف وإن كانت واجبة له، فمن طاف بلا طهارة فطوافه صحيح، لكن تجب إعادته ما دام بمكة وإلا وجب عليه الفداء. [راجع: “بدائع الصنائع” (2/129)، ط: دار الكتب العلمية].
□ ويقول العلامة الكاساني في “البدائع” (2/129): فأما الطهارة عن الحدث والجنابة والحيض والنفاس فليست بشرط لجواز الطواف، وليست بفرض عندنا، بل واجبة حتى يجوز الطواف بدونها.
پہلے اور دوسرے قول میں فرق

جمہور کے نزدیک طواف کیلئے وضو شرط ہے، جبکہ احناف کے نزدیک طواف کیلئے وضو واجب ہے.

دونوں میں فرق یہ ہے کہ مثلا کسی شخص نے طواف زیارت بغیر وضو کے یا حالت حیض میں کیا تو جمہور علماء کے نزدیک اس نے گویا طواف کیا ہی نہیں لہذا اس کا فرض رہ گیا ہے، جبکہ امام ابوحنیفہ رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ بےوضو یا حیض میں کیا گیا طواف معتبر شمار ہوگا اور فرض ادا ہوگیا لیکن واجب پورا نہ کرنے کی وجہ سے یا تو پاکی میں اس طواف کو دہرادے یا پھر دم ادا کردے.

٣- تیسرے قول کی دلیل

علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ طواف کیلئے وضو سنت ہے، لہذا اگر طواف کے دوران وضو ٹوٹ جائے تو اس سے طواف پر کوئی اثر نہیں پڑتا.

□ بقول من يرى سنية الطهارة للطواف كشيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله وهذا يعني عدم ثأثر صحة الطواف بانتقاض الطهارة أثناءه.

اسی طرح فرماتے ہیں کہ جو لوگ طواف کیلئے وضو کو شرط قرار دیتے ہیں ان کے پاس کوئی خاص دلیل سوائے آپ علیہ السلام کے عمل کے کوئی نہیں اور آپ علیہ السلام کا عمل واجب ہونے کی دلیل نہیں ہے

قال شيخ الإسلام ابن تيمية :
والذين أوجبوا الوضوء للطواف ليس معهم حجة أصلاً ؛ فإنه لم يَنقل أحدٌ عن النَّبي صلى الله عليه وسلم لا بإسناد صحيح ولا ضعيف أنه أمر بالوضوء للطواف ، مع العلم بأنه قد حج معه خلائق عظيمة ، وقد اعتمر عمَراً متعددة والناس يعتمرون معه فلو كان الوضوء فرضاً للطواف لبيَّنه النبي صلى الله عليه وسلم بياناً عامّاً ، ولو بيَّنه لنَقل ذلك المسلمون عنه ولم يهملوه ، ولكن ثبت في الصحيح أنه لما طاف توضأ ، وهذا وحده لا يدل على الوجوب ؛ فإنه قد كان يتوضأ لكل صلاة ، وقد قال : ” إني كرهتُ أن أذكر الله إلا على طهر ” … .اهـ .
“مجموع الفتاوى” ( 21 / 273 ) .
خلاصہ کلام

طواف کیلئے وضو کے ضروری نہ ہونے والی بات کو امام ابوحنیفہ رحمه اللہ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں، بلکہ امام صاحب کے نزدیک تو طواف کیلئے وضو واجب ہے اور وضو کے بغیر طواف ناقص ہی رہےگا، البتہ بعض مجبوریوں میں پاکی کے بغیر کیا ہوا طواف معتبر تو شمار کیا جائےگا، لیکن ناپاکی میں ادا کرنے کی وجہ سے (پاکی میں اسکو دہرانا لازم ہے ورنہ) دم دینا لازم آئےگا.

گویا جمہور امت کے نزدیک طواف کیلئے وضو لازم ہے اور یہی قول مفتی بہ اور راجح ہے

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
2اگ١٥ اگست ٢٠١٩ مکہ مکرمہ

اپنا تبصرہ بھیجیں