انبیائےکرام کی تصویریں
سوال
مندرجہ ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے
تین تصویریں
(از: عبدالرؤوف)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل ہی خوابوں اور بہت سی مبشرات کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی گئی. کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف وکمالات سابقہ کتب سماویہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ مذکور تھے۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف ذکر کئے گئے تھے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیار کردہ جماعت صحابہ کرامؓ کے اوصاف حمیدہ بھی اللہ تعالیٰ نے سابقہ کتب میں بیان کئے تھے۔ جس کا اظہار اللہ تعالیٰ نے خود سورہ فتح میں فرمایا ہے۔ اور جس کا پتہ ”بیت المقدس“ کی فتح سے بھی ملتا ہے کہ انہوں نے امیرالمؤمنین حضرت عمرؓ کو اپنی کتابیں دیکھ کر پہچان لیا تھا۔ان قرائن نبوت اور حقائق میں سے ایک وہ بھی واقعہ ہے جسے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ اور حضرت جبیر بن مطعم نے بیان فرمایا ہے، جو سیرت کی کتب میں مرقوم ہے۔حضرت حکیم بن حزام فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد ہم بغرض تجارت شام گئے (تب تک حضرت حکیم بن حزام اور جبیر مسلمان نہیں ہوئے تھے)۔ وہاں شاہ روم نے ہمیں طلب کیا، جب ہم حاضر ہوئے تو اس نے ہم سے کہا: میں آپ سے کچھ باتیں پوچھنا چاہتا ہوں، پہلے تم وعدہ دو کہ تم سچ بتاؤ گے۔ ہم نے کہا: جی پوچھیئے۔شاہ روم نے کہا: تم عرب کے کس قبیلے سے ہو؟ اور وہاں کوئی ایسا شخص ہے جس نے نبوت کا دعوی کیا ہو؟ میں نے کہا: میرا نسب نامہ پانچویں پشت میں ان سے مل جاتا ہے۔ ان کا نام محمد ہے۔ پھر اس نے کہا: تم اس کی حمایت کرنے والے ہو یا انکار کرنے والے؟ ہم نے کہا ہم ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے ان کی مخالفت کی اور انکار کیا۔کہتے ہیں کہ پھر شاہ روم ہمیں ایک مکان میں لے گیا جس کے مختلف کمرے تھے۔ ہم اس کے ساتھ ایک کمرے میں داخل ہوئے تو اس نے ایک جگہ سے کپڑا اٹھایا اور پوچھا: جانتے ہو یہ کس کی تصویر ہے؟ ہم نے نفی میں جواب دیا تو کہنے لگا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کی تصویر ہے۔ پھر دوسری اور تیسری جگہ اسی طرح مختلف انبیاء کی تصویریں دکھاتا رہا۔ کئی انبیاء کی تصویریں دکھانے کے بعد وہ ہمیں ایک جگہ لے گیا، جب کپڑا اٹھایا تو اس نے پوچھا جانتے ہو یہ کس کی تصویر ہے؟ ہم نے کہا: ہاں یہ تو ”محمد بن عبداللہ“ (محمد رسول اللہ) کی تصویر ہے۔ اس نے پوچھا جانتے ہو یہ تصویر کب بنائی گئی ہے؟ ہم نے کہا: ہم نہیں جانتے، تو کہنے لگا کہ یہ تصویر آج سے ایک ہزار سال قبل بنائی گئی ہے۔حضرت جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر مبارک کے پیچھے دو اور تصویریں تھیں۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر ہٹائی اور پوچھا اس شخص کو جانتے ہو یہ کون ہے؟ ہم نے کہا: ہاں یہ ابوقحافہ کا بیٹا ابوبکر ہے۔ پھر اس نے حضرت ابوبکرؓ کی تصویر ہٹائی اور پوچھا کہ اس شخص کو جانتے ہو یہ کون ہے؟ ہم نے کہا: یہ خطاب کا بیٹا عمر ہے۔ہماری تصدیق کے بعد اس نے کہا: تم گواہ ہوجاؤ کہ یہ محمد، اللہ کے آخری رسول ہیں اور ان کے بعد ابوبکرؓ اور ان کے بعد حضرت عمرؓ ان کے خلیفہ ہوں گے۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ان کی ضرور حمایت کرتا۔
کیا یہ پورا واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ بعینه کہیں نہیں ملا، البتہ اس واقعے کے قریب کے کچھ واقعات مختلف اسناد کے ساتھ موجود ہیں.
١. پہلی سند:
اس میں ہشام بن العاص صحابی کہتے ہیں کہ ہمیں ایلچی بنا کر روم کے بادشاہ کے ہاں بھیجا گیا اور ہم نے وہاں ہرقل کے پاس انبیائےکرام کی تصاویر دیکھیں.
□ أخرجه إسماعيل الأصبهاني في “دلائل النبوة” (88)، والبيهقي في دلائل النبوة” (1/385)، من طريق عَبْدالْعَزِيزِ بْن مُسْلِمِ بْنِ إِدْرِيسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ الْعَاصِ الْأُمَوِيِّ، قَالَ: بُعِثْتُ أَنَا وَرَجُلٌ آخَرُ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَى هِرَقْلَ صَاحِبِ الرُّومِ نَدْعُوهُ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا الْغُوطَةَ (يَعْنِي دِمَشْقَ) فَنَزَلْنَا عَلَى جَبَلَةَ بْنِ الْأَيْهَمِ الْغَسَّانِيِّ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ وَإِذَا هُوَ عَلَى سَرِيرٍ لَهُ، فَأَرْسَلَ إِلَيْنَا بِرَسُولٍ نُكَلِّمُهُ… ثم ساق حديثا طويلا، وفيه أنهم دخلوا على هرقل فأراهم صور الأنبياء.
■ اس سند کی حیثیت:
اس میں دو راوی مجہول ہیں:
١. عبدالعزيز بن مسلم بن إدريس.
٢. عبدالله بن إدريس بن عبدالرحمن، لا يعرفان، ولم يترجم لهما أحد.
● ٢. دوسری سند:
دلائل نبوہ میں ابونعیم اصبہانی نے یہی روایت نقل کی ہے کہ یہ ابوبکر صدیق کے زمانے کا واقعہ ہے.
□ أخرجه أبونعيم الأصبهاني في “دلائل النبوة” (13) من طريق مَسْعُود بْن يَزِيدَ الْقَطَّانُ، قَالَ: ثنا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: ثنا عَبَّادُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ الْقُرَشِيِّ، أَنَّ هِشَامَ بْنَ الْعَاصِ، وَنُعَيْمَ بْنَ عَبْدِاللہ، وَرَجُلًا آخَرَ قَدْ سَمَّاهُ بُعِثُوا إِلَى مَلِكِ الرُّومِ زَمَنَ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَى جَبَلَةَ بْنِ الْأَيْهَمِ، وَهُوَ بِالْغُوطَةِ، فَإِذَا عَلَيْهِ ثِيَابٌ سُودٌ… ثم ساق الحديث.
■ اس سند کی حیثیت:
یہ سند بھی بہت کمزور ہے کیونکہ اس میں بہت سے مجہول راوی ہیں.
¤ وهذا الطريق ضعيف جدا، مسلسل بالمجاهيل، فيه “مسعود بن يزيد القطان أبوأحمد الزمن”، ترجم له أبونعيم في “تاريخ أصبهان” (1767)، وكذلك ترجم له الذهبي في “تاريخ الإسلام” (544)، ولم يذكرا فيه جرحا ولا تعديلا، فهو مجهول الحال.
¤ وقد ضعف سنده ابن حجر في “فتح الباري”.
● ٣. تیسری سند:
یہ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میں تجارت کیلئے شام کی طرف گیا تو وہاں ایک شخص ملا جس نے مجھ سے آپ علیہ السلام کے بارے میں پوچھا، اور پھر انبیائےکرام کی تصاویر والا واقعہ بیان کیا.
□ أخرجه البخاري في “التاريخ الكبير” (1/179) ، وأبونعيم في “دلائل النبوة” (12)، والطبراني في “المعجم الأوسط” (8231)، والبيهقي في “دلائل النبوة” (1/384)، من طريق أُم عُثمان بنت سَعِيد بن محمد بن جبير بن مطعم، عَنْ أَبيها سَعِيد، عَنْ أَبيه مُحَمد بْن جُبَير، عَنْ جُبَير بْن مُطعِم، قَالَ: خرجتُ تاجرا إلى الشام، فلقيتُ رجلا مِن أهل الكتاب، فقَالَ: هل عِندكم رجلٌ يَتَنبَأُ؟ قلتُ: نعم، فجاء رجلٌ مِن أهل الكتاب، فقَالَ: فِيم أنتم؟ فأدخلني منزلا لَهُ، فإذا فِيهِ صور، فرأَيتُ النَّبيَّ صَلى الله عَلَيه وسَلم، قَالَ: هُوَ هذا؟ قلتُ: نعم، قَالَ: إنَّهُ لم يكن نَبِيٌّ إلا كَانَ بعده نَبيٌّ، إلا هذا النَّبيُّ.
■ اس سند کی حیثیت:
اس سند میں بھی مجاہیل راوی ہیں جس کی وجہ سے یہ سند کافی کمزور ہے.
¤ وإسناده ضعيف جدا أيضا؛ فيه سعيد بن محمد بن جبير.
◇ قال ابن القطان في “بيان الوهم والإيهام” (4/503): لا تعرف له حال.
¤ وفيه كذلك أم عثمان بنت سعيد بن محمد بن جبير، لا تعرف، لم يترجم لها أحد.
● ٤. چوتھی سند:
یہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ان کو ابوبکر صدیق نے ایلچی بنا کر بھیجا تھا اور انہوں نے تصاویر دیکھیں.
□ أخرجه الذهبي في “تاريخ الإسلام” (1/797) بسنده من طريق الزُّبَيْر بْنُ بَكَّارٍ، قال حَدَّثَنِي عَمِّي مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِالله، عَنْ جَدِّي عَبْدِالله بْنِ مُصْعَبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: بَعَثَنِي أَبُوبَكْرٍ فِي نَفَرٍ مِنَ الصَّحَابَةِ إِلَى مَلِكِ الرُّومِ لِأَدْعُوَهُ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَخَرَجْنَا نَسِيرُ عَلَى رَوَاحِلِنَا حَتَّى قَدِمْنَا دِمَشْقَ، فَإِذَا عَلَى الشَّامِ لِهِرَقْلَ جَبَلَةُ، فَاسْتَأْذَنَّا عَلَيْهِ، فَأَذِنَ لَنَا… ثم ساق الحديث بطوله.
■ اس سند کی حیثیت:
یہ سند بھی کافی کمزور ہے کیونکہ مجاہیل کے ساتھ ساتھ اس میں مصعب بن ثابت راوی بھی ہے جن پر محدثین نے تنقید کی ہے اور ابن حبان نے ان کو منکر الحدیث قرار دے کر ناقابل حجت کہا ہے.
◇ مصعب بن ثابت بن عبدالله بن الزبير ضعيف لا يحتج به، ضعفه أحمد، وابن معين.
◇ وقال أبوحاتم: صدوق كثير الغلط ليس بالقوى. (الجرح والتعديل:8/403).
◇ وقال ابن حبان في “المجروحين” (3/29): مُنكر الحَدِيث مِمَّن ينْفَرد بِالْمَنَاكِيرِ عَن الْمَشَاهِير، فَلَمَّا كثر ذَلِك مِنْهُ استحق مجانبة حَدِيثه.
♧ حدیث کی تحقیق کرنے والے ایک مستند ادارے سے جب اس قصے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ واقعہ درست نہیں اور اس کے تمام طرق ثابت نہیں.
□ نص الجواب:
الحمد لله
هذه القصة والتي فيها أن بعض الصحابة رأوا صور الأنبياء، ومنها صورة نبينا صلى الله عليه وسلم، عند ملك الروم، قصة واهية لا تصح بوجه، وبيان ذلك كما يلي: هذه القصة رويت من أربعة طرق كلها لا يثبت.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور واقعہ بظاہر دو مختلف روایات کو جوڑ کر بنایا گیا ہے (کہ ہشام بن عاص اور جبیر بن مطعم کی روایات کو جوڑا گیا ہے) جبکہ یہ دونوں روایات اپنی سند کے اعتبار سے کافی کمزور ہیں، لیکن ایک تاریخی واقعہ ہونے کی بنیاد پر اس میں زیادہ شدت کرنے کی ضرورت نہیں، البتہ آپ علیہ السلام کی طرف اسکی نسبت کرنے میں احتیاط کی جائے.بہرحال جس طرح ان تصاویر کو علامات نبوت بیان کرکے اس مضمون میں ذکر کیا گیا ہے یہ بات درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٢ ستمبر ٢٠١٩ کراچی