تنبیہ نمبر 226

     کھجور کی شاخیں

سوال
مندرجہ ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے:
ابودجانہ رضى اللہ عنہ كى ہر روز كوشش ہوتى كہ وہ نماز فجر رسول اللہﷺ كے پيچھے ادا كريں، ليكن نماز كے فورا بعد يا نماز كے ختم ہونے سے پہلے ہى وہ مسجد سے نكل جاتے، رسول اللہﷺ كى نظريں ابودجانہ كا پيچھا كرتيں، جب ابودجانہ كا يہى معمول رہا تو ايک دن رسول اللہﷺ نے ابودجانہ كو روک كر پوچھا: “ابودجانہ! كيا تمہيں اللہ سے كوئى حاجت نہيں ہے؟” ابودجانہ گويا ہوئے: كيوں نہيں اے اللہ كے رسول! ميں تو لمحہ بھر بھى اللہ سے مستغنى نہيں ہوسكتا۔۔۔
رسول اللہﷺ فرمانے لگے: تب پھر آپ ہمارے ساتھ نماز ختم ہونے كا انتظار كيوں نہيں كرتے، اور اللہ سے اپنى حاجات كے لئے دعا كيوں نہيں كرتے؟
ابودجانہ كہنے لگے: اے اللہ كے رسول! دراصل اس كا سبب يہ ہے كہ ميرے پڑوس میں ايک يہودى رہتا ہے، جس كے كھجور كے درخت كى شاخيں ميرے گھر كے صحن ميں لٹكتى ہيں، جب رات كو ہوا چلتى ہے تو اس كى كھجوريں ہمارے گھر ميں گرتى ہيں، ميں مسجد سے اس لئے جلدى نكلتا ہوں تاكہ ان گرى ہوئى كھجوروں كو اپنے (خالى پيٹ) بچوں كے جاگنے سے پہلے پہلے چُن كر اس يہودى كو لوٹا دوں، مبادا وہ بچے بھوک كى شدت كى وجہ سے ان كھجوروں كو كھا ليں۔۔۔
پھر ابودجانہ قسم اٹھا كر كہنے لگے کہ اے اللہ كے رسول! ايک دن ميں نے اپنے بيٹے كو ديكھا جو اس گرى ہوئى كجھور كو چبا رہا تھا، اس سے پہلے كہ وہ اسے نگل پاتا ميں نے اپنى انگلى اس كے حلق ميں ڈال كر كھجور باہر نكال دى…
اللہ كے رسول! جب ميرا بيٹا رونے لگا تو ميں نے كہا: اے ميرے بچے! مجھے حياء آتى ہے كہ كل قيامت كے دن ميں اللہ كے سامنے بطور چور كھڑا ہوں۔۔۔
سيدنا ابوبكر رضى اللہ عنہ پاس كھڑے يہ سارا ماجرا سن رہے تھے، جذبہ ايمانى اور اخوت اسلامى نے جوش مارا تو سيدھے اس يہودى كے پاس گئے اور اس سے كھجور كا پورا درخت خريد كر ابودجانہ اور اس كے بچوں كو ہديہ كرديا۔۔۔
پھر كيوں نہ اللہ سبحانہ وتعالىٰ ان مقدس ہستيوں كے بارے يہ سند جارى كرے:
﴿رَّضِىَ اللّـٰهُ عَنْـهُـمْ وَرَضُوْا عَنْهُ﴾
“اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ الله سے راضی ہوئے-“
چند دنوں بعد جب يہودى كو اس سارے ماجرے كا پتہ چلا تو اس نے اپنے تمام اہل خانہ كو جمع كيا، اور رسول اللہﷺ كے پاس جا كر مسلمان ہونے كا اعلان كرديا۔۔۔ (بحوالہ: الطبقات الكبرى لإبن سعد)
     کیا یہ پورا واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور واقعے کا حوالہ درست نہیں بلکہ یہ نزهة المجالس نامی ایک کتاب میں بغیر سند کے منقول ہے.

□ أريد أن أسأل عن مدي صحة هذه القصة: اعتاد أبودجانة أن يكون في صلاة الفجر خلف الرسول الكريم، ولكنه ما كاد ينهي صلاته حتى يخرج من المسجد مسرعا، فلفت ذلك نظر الرسول الكريم، فاستوقفه يوما، وسأله قائلا: “يا أبا دجانة! أليس لك عند الله حاجة؟” قال أبودجانة: بلى يا رسول الله! ولا أستغنى عنه طرفة عين. فقال النبى: “إذن لماذا لا تنتظر حتى تختم الصلاة معنا، وتدعو الله بما تريد؟” قال أبودجانة: السبب فى ذلك أن لى جارا من اليهود، له نخلة فروعها في صحن بيتى، فإذا ما هبت الريح ليلا أسقطت رطبها عندي، فترانى أخرج من المسجد مسرعا لأجمع ذلك الرطب، وأرده إلى صاحبه قبل أن يستيقظ أطفالى، فيأكلون منه وهم جياع، وأقسم لك يارسول الله أننى رأيت أحد أولادي يمضغ تمرة من هذا الرطب فأدخلت أصبعى في حلقه، وأخرجتها قبل أن يبتلعها، ولما بكى ولدي قلت له: أما تستحیی من وقوفى أمام الله سارقا؟ ولما سمع أبوبكر ما قاله أبودجانة، ذهب إلى اليهودي، واشترى منه النخلة، ووهبها لأبى دجانة وأولاده، وعندما علم اليهودي بحقيقة الأمر أسرع بجمع أولاده وأهله، وتوجه بهم إلى النبى مُعلِنًا دخولهم الإسلام.
اس واقعے کی اسنادی حیثیت

یہ واقعہ صفوری متوفی 894 ہجری نے اپنی کتاب نزہت المجالس اور البکری الشافعی متوفی 1301 ہجری نے اعانة الطالبين میں بغیر سند نقل کیا اور یہ دونوں کتابیں ہر قسم کے رطب و یابس واقعات سے بھری ہوئی ہیں، لہذا سند کے بغیر اس کتاب میں مذکور کسی بھی واقعے کا (جس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کی جائے) کوئی اعتبار نہیں، نیز سوال میں مذکور یہ واقعہ بھی معتبر نہیں.

ایک مستند ادارے سے جب اس قصے کا پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ جھوٹا قصہ ہے

هذه قصة مكذوبة لا أصل لها! ولا توجد في دواوين السنَّة!!
وقد ذكرها عبدالرحمن الصفوري (ت 894) في كتابه “نزهة المجالس ومنتخب النفائس” (1/206).
وذكرها أيضاً البكري الشافعي (ت 13010هـ) في كتابه “إعانة الطالبين على حل ألفاظ فتح المعين” (3/293)!
ولم يذكرا لها أيّ إسناد!! ولم يذكرا من أين أتيا بها غفر الله لهما!
اس مضمون کا صحیح واقعہ

مسند أحمد کی روایت ہے کہ ایک صحابی نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! میرے پڑوسی کا ایک درخت ہے جس سے میرا باغ درست ہوسکتا ہے، آپ اس سے کہیں کہ وہ یہ درخت مجھے دیدے، تو آپ علیہ السلام نے اس شخص سے فرمایا کہ ایک درخت دے دو اور تمہیں اس کے بدلے جنت کا درخت مل جائےگا، لیکن اس شخص نے انکار کردیا، تو ابودحداح ان کے پاس گئے اور ان سے پورے باغ کے بدلے وہ ایک درخت خرید لیا.

□ روى أحمد في المسند (12482)، وابن حبان (7159)، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَارَسُولَ اللهِ! إِنَّ لِفُلَانٍ نَخْلَةً، وَأَنَا أُقِيمُ حَائِطِي بِهَا، فَأْمُرْهُ أَنْ يُعْطِيَنِي حَتَّى أُقِيمَ حَائِطِي بِهَا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “أَعْطِهَا إِيَّاهُ بِنَخْلَةٍ فِي الْجَنَّةِ” فَأَبَى، فَأَتَاهُ أَبُو الدَّحْدَاحِ فَقَالَ: بِعْنِي نَخْلَتَكَ بِحَائِطِي، فَفَعَلَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَارَسُولَ اللهِ! إِنِّي قَدِ ابْتَعْتُ النَّخْلَةَ بِحَائِطِي. قَالَ: فَاجْعَلْهَا لَهُ، فَقَدْ أَعْطَيْتُكَهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “كَمْ مِنْ عَذْقٍ رَدَاحٍ لِأَبِي الدَّحْدَاحِ فِي الْجَنَّةِ”… قَالَهَا مِرَارًا.
خلاصہ کلام

ہر مسلمان پر فرض ہے کہ آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کسی بھی واقعے کو بیان یا شیئر کرنے سے پہلے اس بات کی تحقیق ضرور کرلے کہ کیا وہ بات درست ہے یا نہیں، کیونکہ کسی بھی کتاب میں منقول ہونا کسی واقعے کے صحیح ہونے کی علامت نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٦ ستمبر ٢٠١٩ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں