غصے کو دور کرنے کی دعا
سوال
مندرجہ ذیل روایت اور دعا کی تحقیق مطلوب ہے…حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے آپ کوئی ایسی دعا بتا دیجئے جو میں مانگا کروں… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو:
اللَّهمَّ ربَّ محمَّدٍ النَّبيِّ، اغفِرْ لي ذَنْبي، وأَذْهِبْ غَيْظَ قَلبي، وأَجِرْني مِن مُضِلَّاتِ الفِتَنِ ما أَحْيَيتَني.*ترجمہ:* اے اللہ! اے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار! میرے گناہ بخش دے اور میرے دل سے غصے کی عادت نکال دے اور جب تک تو مجھے زندہ رکھے گمراہ کرنے والے فتنوں سے اپنی پناہ میں رکھ. (حوالہ: عمدة التفسير.الصفحة أو الرقم: 1/355.خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح).*مفتی سخاوت اللہ*(جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی پاکستان)*کیا یہ پوسٹ اور دعا درست ہے؟*
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ سوال میں ذکر کردہ دعا سند کے لحاظ سے درست ضرور ہے لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں غصے کا کوئی تذکرہ نہیں بلکہ اس روایت میں ایمان پر استقامت کی دعا کا تذکرہ ہے.
*● واقعے کا پس منظر:*
واقعہ یوں ہے کہ آپ علیہ السلام کثرت سے یہ دعا پڑھتے تھے: *اللهم مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینك* تو حضرت ام سلمہ نے پوچھا کہ یارسول اللہ! کیا دل بھی بدلتے ہیں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں چاہے تو بندے کا دل ایمان پر قائم رکھے چاہے تو پلٹ دیں، اسلئے ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمارے دل کو ایمان پر استقامت عطاء فرمائے.تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ مجھے کوئی دعا سکھادیں جو میں بھی استقامت قلب کیلئے پڑھوں تو آپ علیہ السلام نے یہ دعا سکھائی.
□ أنَّ رَسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ كان يُكثِرُ في دُعائِه أنْ يقولَ: اللَّهمَّ مُقَلِّبَ القُلوبِ، ثَبِّتْ قلبي على دَينِكَ، قالت: قلتُ: يارسولَ اللهِ! أوَ إنَّ القلوبَ لَتتَقَلَّبُ؟ قال: نعمْ، ما مِن خَلْقِ اللهِ مِن بَني آدمَ مِن بَشَرٍ إلَّا أنَّ قلبَه بينَ إصْبَعَينِ مِن أصابِعِ اللهِ، فإنْ شاء اللهُ عزَّوجلَّ أقامَه، وإنْ شاء اللهُ أزاغَه، فنسألُ اللهَ ربَّنا ألَّا يُزيغَ قُلوبَنا بعدَ إذْ هَدانا، ونَسأَلُه أنْ يَهَبَ لنا مِن لَدُنْهُ رحمةً، إنَّه هو الوَهَّابُ، قالت: قلتُ: يارسولَ اللهِ! ألَا تُعَلِّمُني دَعوةً أَدْعو بها لِنَفسي؟ قال: بلى، قُولي: اللَّهمَّ ربَّ محمَّدٍ النَّبيِّ، اغفِرْ لي ذَنْبي، وأَذْهِبْ غَيْظَ قَلبي، وأَجِرْني مِن مُضِلَّاتِ الفِتَنِ ما أَحْيَيتَني.- الراوي: أم سلمة هند بنت أبي أمية.- المحدث: أحمد شاكر.- المصدر: عمدة التفسير.- الصفحة أو الرقم: 1/355.- خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح.
*● غصے کے وقت اس دعا کو پڑھنے کا واقعہ:*
حضرت عائشہ جب کبھی غصے میں ہوتیں تو آپ علیہ السلام فرماتے: اے عائشہ! یہ دعا پڑھو
□ فعن محمد بن أبي بكر قال: كانت عائشة رضي الله عنها، إذا غضبت عرَّك النبي صلى الله عليه وسلم بأنفها ثم يقول: “يا عويش! قولي: اللَّهم ربَّ محمد اغفر لي ذنبي، وأذهب غيظ قلبي، وأجرني من مضلات الفتن”.
اور بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ علیہ السلام اس دعا کو حضرت عائشہ کیلئے پڑھتے تھے جب وہ غصے میں ہوتیں.
□ مأخوذ من دعاء النبي لعائشة رَضِيَ الله عَنْهَا: “اللهمَّ اغفرْ لهَا ذنبَهَا، وأذْهبْ غَيْظَ قَلْبِهَا، وأعذْهَا منْ مُضِلاّت الفِتَنْ”.- أخرجه ابن عساكر بإسناده في “الأربعين في مناقب أمهات المؤمنين”، (ص:85) عن عائشة رَضِيَ الله عَنْهَا، وقال: هذا حديث صحيح حسن، من حديث بقية بن الوليد. وأخرجه ابن السني بنحوه في عمل اليوم والليلة، (برقم: 457) ، وفي نسخة أخرى لابن السني قال: “وأجرني من الشيطان” بدل: “من مضلات الفتن”، وانظر تخريجه عند الألباني في الضعيفة، (برقم:4207).
□ وله شاهد عن أم سلمة رَضِيَ الله عَنْهَا عند أحمد، (برقم: 26576)، (44/2) بنحوه، ولفظه: “قُولي: اللَّهُمَّ رَبَّ مُحَمَّد النَّبِيِّ اغْفِرْ لي ذَنْبِي، وَأذْهِبْ غَيْظَ، وَأجِرْنِي منْ مُضِلَّات الْفِتَنِ مَا أحَيْيَتْنَا”.وحسنه الهيثمي في مجمع الزوائد، (10/27)، وهو عند عبد بن حميد، (ص:443)،
(برقم 1534)، والطبراني في المعجم الكبير، (23/338)، (برقم:785)، والدعوات الكبير للبيهقي، (1/485)، بدون لفظة: “ما أحييتنا”.
□ وله شاهد عن أم هانئ رَضِيَ الله عَنْهَا قالت: يَارَسُولَ الله! عَلِّمْنِي دُعاءَ أدْعُو به، قَالَ: “قُولي: اللَّهُمَّ اغْفرْ لي ذَنْبِي…” الحديث.- أخرجه
الخرائطي في اعتلال القلوب، (برقم:52)، ومساوئ الأخلاق، (برقم:323).- الفتوحات الربانية (3/702).- أخرجه ابن السني(456)، قال محققه: إسناده حسن.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور دعا غصے کے دفع کرنے کیلئے آپ علیہ السلام سے صحیح سند کے ساتھ منقول ہے لیکن بطور حوالہ جو روایت نقل کی گئی ہے اس روایت میں غصے کا تذکرہ نہیں، بطور عالم ہر شخص کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہیئے کہ آپ علیہ السلام کی طرف جب کسی بھی بات کی نسبت کی جائے تو اس میں انتہائی احتیاط کی جائے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٧ اکتوبر ٢٠١٩ مکہ مکرمہ