کھجور شہد سے زیادہ لذیذ
سوال
مندرجہ ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے:
“مولا علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہُ کے خواب کو فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہُ نے عملاً بیان فرما دیا”۔
ایک بار مولا علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہُ نے رات کو خواب دیکھا کہ گویا آپ رضی اللہ عنہُ نے نمازِ فجر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے ادا فرمائی۔ نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محراب سے ٹیک لگا کر تشریف فرما ہوگئے۔ اچانک ایک لونڈی کھجوروں سے بھرا ہُوا تھال لے کر حاضر ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں سے ایک کھجور اُٹھائی اور فرمایا: یَاعَلِیُّ! تَاخُذُ ھٰذِہِ الرَّطَبَة؟ یعنی اے علی! کیا یہ کھجور کھاؤ گے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ کھجور میرے منہ میں ڈال دی۔ پِھر دوسری کھجور اُٹھائی اور اسی طرح مجھ سے پوچھا، میں نے اِقرار کِیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ کھجور بھی میرے منہ میں ڈال دی۔ جب میں بیدار ہُوا تو مجھ پر اب تک وہی کیفیت طاری تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کھجوریں میرے منہ میں ڈالی تھیں ان کا ذائقہ بھی موجود تھا۔ میں وضو کر کے مسجد گیا اور امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہُ کے پیچھے نماز ادا کی، نماز کے بعد آپ رضی اللہ عنہُ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح محراب سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ ابھی میں نے اِرادہ ہی کِیا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہُ کو اپنا خواب سُناؤں کہ اچانک ایک عورت کھجوروں سے بھرا ہُوا تھال لے کر مسجد کے دروازے پر آئی اور وہ تھال آپ رضی اللہ عنہُ کے سامنے لا کر رکھ دیا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہُ نے اس میں سے ایک کھجور اُٹھائی اور مجھ سے اِرشاد فرمایا: تَأکُلُ مِن ھٰذَا یَاعَلِیُّ؟ یعنی اے علی! کیا یہ کھجور کھاؤ گے؟ میں نے عرض کِیا: جی ہاں حضور! کیوں نہیں کھاؤں گا۔ پِھر آپ رضی اللہ عنہُ نے وہ کھجور میرے منہ میں ڈال دی۔ پِھر آپ رضی اللہ عنہُ نے ایک اور کھجور اُٹھائی اور دوبارہ مجھ سے پوچھا، میں نے اِقرار کِیا تو آپ نے وہ کھجور میرے منہ میں ڈال دی۔ پِھر اسی طرح کھجوریں اُٹھا کر دیگر اصحاب میں تقسیم فرمانا شروع کردِیں۔ میرے دِل میں مزید کھجوریں کھانے کا شوق ہُوا تو آپ رضی اللہ عنہُ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا: اے میرے بھائی! اگر رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں خواب میں دو سے زیادہ کھجوریں دی ہوتیں تو ہم بھی ضرور دیتے۔ حضرت علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہُ فرماتے ہیں: یہ سُن کر میں بڑا مُتَعَجِّب ہُوا اور کہا کہ جو کچھ میں نے خواب میں دیکھا تھا اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہُ کو اس کی اِطلاع دے دی۔
فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہُ نے میری طرف دیکھا اور اِرشاد فرمایا: اے علی! مومن اللہ کے نُور سے دیکھتا ہے۔
میں نے عرض کِیا: آپ نے سچ فرمایا اے امیر المؤمنین! میں نے خواب میں ایسا ہی دیکھا تھا اور جیسا ذائقہ و لذّت میں نے آپ رضی اللہ عنہُ کے ہاتھ میں دیکھی ہے ویسی ہی الله کے محبوب صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے مُبارک ہاتھوں میں بھی تھی. (ریاض النضرۃ، جِلد:1، صفحہ:331)
کیا یہ پورا واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعے کے مفہوم کے قریب کی ایک روایت ریاض النضرہ نامی کتاب میں بغیر سند کے منقول ہے. (صفحہ: 285/2).
□ يُروَى أن سيدنا علي بن أبي طالب كرم الله وجهه قال: رأيت النبى صلى الله عليه وآله وسلم في المنام ذات ليلة ومعه طبق من تمر فناولني تمرة فأكلتها فوجدت حلاوتها في فمي أشهى من العسل، فقلت: زدني يارسول الله! ولكنه قبل أن يزيدني، كان المؤذن قد أذن لصلاة الفجر، فاستيقظت دون أن يزيدني، فتوضأت وخرجت إلى المسجد، وذلك في عهد الخليفة عمر بن الخطاب رضي الله عنه.
وبعد أن صلينا الفجر خلف أمير المؤمنين عمر، وأثناء خروجي من المسجد أوقفتني امرأة على الباب. وقالت: يا علي! خذ هذا الطبق من التمر وأعطه لأمير المؤمنين، فاعطيته إياه، فتناول الطبق وأعطاني تمرة، فلما وجدت حلاوتها في فمي أشهى من العسل قلت له: زدني، فقال سيدنا عمر رضى الله عنه: لو زادك رسول الله لزدناك… فارتعد علي (كرم الله وجهه) واقترب من سيدنا عمر قائلا: ماذا تقول يا أمير المؤمنين؟ قال سيدنا عمر: لو زادك رسول الله لزدتك. فقال سيدنا علي: ما هذا يا أمير المؤمنين؟ أغيب اطلعت عليه أم رؤيا رأيتها. قال عمر: والله ما هو غيب ولا رؤيا ولكنها القلوب يا علي….. إذا صفت رأت بنور الله.
■ اس واقعے کی اسنادی حیثیت:
یہ واقعہ اس کتاب ریاض النضرہ سے پہلے کسی بھی کتاب میں منقول نہیں اور بعد میں نقل کرنے والوں نے ریاض کا ہی حوالہ دیا ہے، لہذا اس کتاب اور اس کے مصنف کے حالات کو دیکھا جائےگا.
● کتاب کے مصنف:
مشہور امام المحب الطبری کی پیدائش 615 ہجری اور انتقال 694 ہجری میں ہوا ہے.
□ المحب الطبري الإمام المحدث، فقيه الحرم، أبو العباس أحمد بن عبدالله بن محمد بن أبي بكر المكي الشافعي، مصنف الأحكام الكبرى، وشيخ الشافعية، ومحدث الحجاز، ولد سنة خمس عشرة وستمائة، وسمع من ابن المقير وابن الجميزي وشعيب الزعفراني، وكان إمامًا زاهدًا صالحًا كبير الشأن، وتوفي في جمادى الآخرة سنة أربع وتسعين وستمائة.
○ مصنف کے بارے میں علمائے أمت کی رائے:
١. علامہ زرکلی لکھتے ہیں کہ یہ شوافع کے فقہاء میں سے تھے اور ان کی مختلف تصانیف ہیں.
◇ قال عنه خيرالدين الزركلي في الأعلام: أحمد بن عبدالله بن محمد الطبري، أبوالعباس، محب الدين: حافظ فقيه شافعي، متفنن، من أهل مكة مولدا ووفاة. وكان شيخ الحرم فيها. له تصانيف منها:
- (السمط الثمين في مناقب أمهات المؤمنين، ط) صغير.
- (الرياض النضرة في مناقب العشرة – ط) جزآن.
- (القرى لقاصد أم القرى – ط).
- (ذخائر العقبى في مناقب ذوي القربى – ط).
- (الأحكام) ست مجلدات.
٢. علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ یہ شوافع کے امام، حجاز کے محدث، زاہد، مفتی تھے.
◇ وقال عنه الذهبي في تذكرة الحفاظ: المحب الإمام، المحدث، المفتي، فقيه الحرم… تفقّه ودرس وأفتى وصنّف، وكان شيخ الشافعية ومحدث الحجاز وكان إماماً صالحا زاهداً كبير الشأن. وقال عنه أيضاً في المعجم المختص بالمحدثين: الإمام، الحافظ، المفتي، شيخ الحرم… كان عالماً عاملاً جليل القدر، عارفاً بالآثار، ومن نظر في أحكامه عرف محلّه من الفقه والعلم…
٣. علامہ اسنوی لکھتے ہیں کہ یہ حجاز کے شیخ، علم فقہ اور آثار کے ماہر تھے.
◇ وقال عنه الأسنوي في طبقات الشافعية: محبّ الدين أبوالعباس أحمد بن عبدالله بن محمّد الطبري، ثمّ المكّي، شيخ الحجاز، كان عالماً عاملاً جليل القدر، عالماً بالآثار والفقه.
٤. علامہ سبکی فرماتے ہیں کہ یہ حرم کے شیخ، حجاز کے بلامقابلہ حافظ تھے.
◇ وقال عنه تاج الدين السبكي في طبقات الشافعية الكبرى: شيخ الحرم وحافظ الحجاز بلا مدافعة.
٥. علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ انہوں نے احکام میں کتابیں تصنیف کیں جو فائدہ مند بھی ہیں، لیکن طوالت کی وجہ سے اس میں صحیح، حسن اور ضعیف ہر طرح کی روایات جمع ہوگئیں اور ضعیف روایات کی وضاحت اور صراحت بھی موجود نہیں.
◇ وقال ابن كثير: مصنف الأحكام المبسوطة أجاد فيها وأفاد وأكثر وأطنب وجمع الصحيح والحسن ولكن ربما أورد الأحاديث الضعيفة ولا ينبه على ضعفها.
● کتاب کا تعارف:
ریاض النضرہ نامی کتاب دراصل عشرہ مبشرہ کے فضائل کو ذکر کرنے والی کتاب ہے.
□ الكتاب: الریاض النضرة فی مناقب العشرة. هو كتاب في تراجم الرجال، وقد اختص مؤلفه بذكر تراجم الرجال العشرة المبشرين بالجنة؛ لقربهم من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولإظهار فضلهم؛ حيث اختصهم الله تعالى بهذا الفضل العظيم، من قربهم من النبي، ومن دخولهم الجنة.
■ اس کتاب کی اسنادی حیثیت:
اس کتاب پر کوئی تفصیلی تبصرہ باوجود تلاش بسیار کے ہمیں مل نہ سکا، البتہ موجودہ دور کے بعض عرب علماء کے تبصرے کچھ یوں ہیں کہ انہوں نے شیخ المحب الطبری کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی تالیفات بہت ساری ہیں لیکن انہوں نے اپنی کتابوں میں روایات کو محض جمع کیا ہے اور صحیح اور غیرصحیح کا فرق نہیں رکھا.
□ أبو العباس أحمد بن محمد الطبري سني وله مؤلفات متعددة، وكتبه المذكورة نافعة ولكن يجمع فيها الروايات ولا يتحرى الصحيح من الضعيف.
ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ شیعہ ان کی کتب سے استدلال اسلئے کرتے ہیں کہ انہوں نے روایات کو محض جمع کیا اور اس میں منکر اور کمزور روایات بھی موجود ہیں.
□ وإنما يكثر الشيعة من الاستدلال بكتبه لأنه جمع الروايات وقد يجدون في بعض الروايات التي يذكرها وقد تكون منكرة ما قد يتمسكون به في باطلهم.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور واقعہ جس کتاب میں منقول ہے اس کے مصنف نے چھ سو سال بعد یہ کتاب لکھی مگر کوئی سند ذکر نہیں کی، اور اس سے پہلے بھی کہیں اس واقعے کا کوئی ثبوت ہمیں نہ مل سکا، لہذا اس واقعے کو غیرثابت ہی قرار دیا جائےگا اور اس کے بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٨ نومبر ٢٠١٩ کراچی