قبر میں حافظِ قرآن کا اکرام
سوال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب حافظِ قرآن مرجاتا ہے تو اللہ تعالی زمین کو حکم دیتا ہے کہ اس کے گوشت (و پوست) نہ کھانا، زمین عرض کرتی ہے: میرے معبود! میں اسکا گوشت کیسے کھا سکتی ہوں جبکہ اسکے شکم میں تیرا کلام موجود ہے. (کنزالعمال، ص:139، ج:1، دیلمی بروایت حضرت جابر رضی اللہ عنہ)
اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت مختلف کتب میں منقول ہے جیسے: مسند فردوس وغیرہ.
□ وفي مخطوطة زهر الفردوس لابن حجر: قلت (أي ابن حجر) قال أخبرنا والدي أخبرنا أبوالفتح بن نعارة حدثنا إبراهيم بن شهريار حدثنا علي بن موسى الحافظ بالبصرة حدثنا علي بن الفضل بن نصر البلخي حدثنا محمد بن الحسن بن محمد أبوجعفر الصفار البلخي حدثنا سفيان عن عمرو بن دينار عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا مات حامل القرآن أوحى الله إلى الأرض أن لا تاكلي لحمه؛ قالت: إلهي كيف آكل لحمه وكلامك في جوفه.
اس روایت کی اسنادی حیثیت
اس روایت کی سند میں ایک راوی
احمد بن یعقوب البلخی* ہے.
اس راوی کے متعلق محدثین کے اقوال:
١. حافظ ابن حجر نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ سفیان بن عیینہ سے منکر اور عجیب روایات نقل کرتا ہے
◇ وقد يكون ابن يعقوب هذا هو ذاك الذي في لسان الميزان لابن حجر: أحمد بن يعقوب البلخي عن سفيان بن عيينة وغيره أتى بمناكير وعجائب.
٢. امام ذہبی نے میزان الاعتدال (ج:1/7، 665) میں احمد بن یعقوب کا تذکرہ کرکے لکھا ہے: له عن سفیان مناكير و عجائب
٣. المغنی فی الضعفاء میں نمبر 490 پر احمد بن یعقوب البلخی کا تذکرہ ہے اور لکھا ہے: “له مناكير وموضوعات” کہ اس راوی سے منکر اور من گھڑت روایات منقول ہیں
ابن عساکر نے اس روایت کو اپنی سند سے نقل کیا اور پھر فرمایا کہ یہ غریب روایت ہے
¤ عند ابن عساكر في معجم الشيوخ برقم (1586) ما نصه:
أخبرنا هبة الله بن حمد بن أحمد بن الحسن، أبوالفضل الجوهري البُرُوجِردي إجازةً كتب إليَّ بها من بُرُوجِرد، قال: أنبأنا الفقيه أبوالفتح عبدالواحد بن إسماعيل بن نغارة، ثنا الشيخ المرشد أبوإسحاق إبراهيم بن شهريار (هو الكازروني) ثنا علي بن محمد ابن موسى الحافظ، بالبصرة إملاءً، ثنا علي بن الفضل بن نصر البلخي، ثنا أحمد بن يعقوب، ثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن جابر بن عبدالله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:…..، ثم ساق الحديث.
¤ وقال بعده: هذا حديث غريب.
¤ قال عقبه ابن عساكر: هذا حديثٌ غريب.
كذا ذكره الديلمي في “الفردوس بمأثور الخطاب” (1112)، وأسنده ابنه في “مسند الفردوس” كما في “الغرائب الملتقطة/مخطوط” (482) لابن حجر.
نوٹ
غریب وہ روایت کہلاتی ہے جس کو نقل کرنے والا صرف ایک ہی راوی ہو…
یہاں پر غالبا متن میں غرابت ہے اور صرف یہی سند احمد بن یعقوب البلخی عن سفیان بن عیینہ سے منقول ہے.
خلاصہ کلام
یہ روایت متن کے اعتبار سے غریب ہے اور اس کی سند میں ایک راوی ایسا ہے جس پر من گھڑت روایات بنانے کا الزام ہے، لہذا اس روایت کو غیرثابت ہی قرار دیا جائےگا اور اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٤ نومبر ٢٠١٩ کراچی