لاش کو پھانسی پر لٹکانے کا حکم
سوال
محترم مفتی صاحب!!
عدالتی فیصلے پر شیعہ دارالافتاء (ادارہ منہاج الحسین لاہور) کا فتوی آیا ہے کہ یہ توہین میت ہے اور میت پر کوئی بھی حد یا تعزیر جاری کرنا جائز نہیں۔
اور یہ ایک مضمون سامنے آیا ہے توجہ فرمائیں:
حضرت محمد رسول اللہﷺ نے اس بات کو اپنے اسوۂ حسنہ میں شامل فرمایا کہ بنی نوع انسان کی نعش کی بےحرمتی، بےتوقیری اور تذلیل نہ کی جائے، لاش کا تعلق دنیا کے کسی بھی مذہب سے ہو، لاش بحفاظت اور باحترام ورثاء کے سپرد کی جائے۔
نعش کی حفاظت اور سپردگی کا واقعہ حدیث شریف میں یوں آیا ہے کہ جنگ احزاب میں ایک کافر سردار خندق میں گر کر ہلاک ہوگیا اور نعش پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔ کفار نے پیشکش کی کہ دس ہزار درھم لے لیں اور یہ نعش ان کے حوالے کر دی جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم مردہ فروش نہیں، ہم اس کی دیت نہیں لیں گے اور پھر بلامعاوضہ اس نعش کو واپس کر دیا۔ (شرح الامام العلامہ محمد بن عبدالباقی الزرقانی المالکی علی المواهب اللدنیة للعلامة القسطلانی، الجزء الثانی، صفحہ: 114، الطبعة الاولیٰ بالمطبعة الازھریة المصریة) (السیرۃ النبوۃ لابن هشام، الجزء الثالث، صفحہ: 155، دارلجیل بیروت لبنان)
آپ سے اس مسئلے کی وضاحت مطلوب ہے
(سائل: مفتی عبید، فاضل مدرسہ ابن عباس)
الجواب باسمه تعالی
اس جواب سے پہلے یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ اس فیصلے کے سیاسی، عدالتی یا فوجی جو بھی اثرات ہیں ان سے ہمیں کوئی غرض نہیں، البتہ اتنا مقصود ہے کہ کیا مرنے کے بعد لاش کو پھانسی دینے کی نظیر قرآن و سنت میں کہیں موجود ہے یا نہیں، اور فقہائےکرام نے اس متعلق کچھ وضاحت کی ہے یا نہیں۔
قرآن مجید میں قتل اور پھانسی کی سزا
قَوْلُ الله تَعَالَى: {إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ الله وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلاَفٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الأَرْضِ}.
*ترجمہ:* اللہ تعالیٰ نے (سورۃ المائدہ) میں فرمایا کہ ”جو لوگ اللہ اور اسکے رسول سے جنگ لڑتے اور ملک میں فساد پھیلاتے رہتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا سولی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پیر الٹے سیدھے (یعنی دائیں بائیں سے) کاٹے جائیں یا جلا وطن یا قید کئے جائیں.
مفسرین علمائےکرام کے اقوال
اس آیت میں قتل اور پھانسی کے درمیان لفظ “أوْ” لایا گیا ہے جس کا ترجمہ “یا” سے کیا جاتا ہے کہ یا تو قتل کرو یا پھانسی دو، لیکن اس میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں:
□ اختَلف أهلُ العِلم في معنى أَوْ التي تَكرَّرت في هذه الآيةِ الكريمة.
١. پہلا قول
یہاں “أوْ” کا معنی اختیار کے ہے کہ امام یا اس کا نائب چاہے تو ان سزاؤں میں سے جو سزا چاہے وہ اختیار کرسکتا ہے، چاہے ایک چاہے دونوں. یہ قول ابن عباس، مجاہد، ابراہیم ،سعید بن مسیب وغیرہ کا ہے.
□ فقِيل: هي للتخييرِ، فيفعلُ الإمامُ أو نائبُه ما رآه المصلحةَ مِن هذه الأمورِ المذكورة. وممَّن قال مِن السَّلفِ: إنَّ “أوْ” هنا للتخييرِ: ابنُ عبَّاس (في رواية عنه) ومجاهد، وإبراهيم، وعطاء، ورِواية عن الحسن، وسعيد بن المسيَّب. (تفسير ابن جرير:8/378).
*امام ابویوسف سے ایک روایت یہ منقول ہے کہ سولی میں اختیار نہیں ہے، اس کو ترک نہ کیا جائے، کیونکہ قرآن مجید میں اسکی تصریح موجود ہے، اور مقصود یہ ہے یہ اس سزا کو شہرت دی جائے، تاکہ دوسرے عبرت حاصل کریں۔ امام ابوحنیفہ کی جانب سے اسکا جواب یہ ہے کہ اصل شہرت قتل سے حاصل ہوجاتی ہے اور سولی پر چڑھانے میں مبالغہ ہے، لہذا اس میں اختیار دیا جائےگا۔ (ہدایہ اولین، ص:٥٣٦)*
٢. دوسرا قول
یہاں پر “أوْ” کا معنی ہے کہ ان سزاؤں میں سے ایک سزا دی جائے، یا تو قتل یا پھانسی. یہ قول قتادہ، سعید بن جبیر وغیرہ کی طرف منسوب ہے.
□ وقيل: للتَّنويع، وأنَّ هذه العقوباتِ تختلفُ بحسبِ الجرائمِ. وممَّن قال مِن السَّلف: إنَّ “أَوْ” هنا للتَّنويعِ: ابنُ عبَّاس (في روايةٍ عنه) وإبراهيمُ، وأبومِجْلَز، والحسن، وقتادة، والسُّدِّي، وعطاء الخُراساني، وسعيد بن جُبَير، والربيع، ومُورِّق العِجلي. (تفسير ابن جرير:8/373).
٣. تیسرا قول
ابن جریر کہتے ہیں کہ بہتر تاویل یہ ہے کہ ہر شخص کی الگ نوعیت اور الگ حکم ہوگا، جس قدر جرم اسی قدر سزا.
□ قال ابنُ جرير: وأَوْلى التأويلين بالصَّواب في ذلك عندنا: تأويلُ مَن أوجبَ على المحاربِ مِن العقوبةِ على قدْرِ استحقاقِه، وجعَل الحُكم على المحاربين مختلفًا باختلافِ أفعالِهم. (تفسير ابن جرير:8/381).
پہلے پھانسی یا پہلے قتل؟
١. پہلی رائے
١. پہلے قتل کیا جائے پھر پھانسی پر لٹکایا جائے تاکہ دوسروں کیلئے عبرت بنے
□ قال ابنُ عَطيَّة: أمَّا صَلبُه فجمهورٌ مِن العلماء على أنَّه يُقتَل ثم يُصلَب نكالًا لغيره، وهذا قول الشافعيِّ.
٢. شیخ شنقیطی کہتے ہیں کہ قتل کے بعد کچھ عرصے کیلئے پھانسی پر لٹکایا جائے تاکہ لوگوں میں اس سزا کی شہرت ہو اور لوگوں میں ڈر پیدا ہو
□ وقال الشنقيطي: الظاهر أنه يُصلَب بعد القتل زمنًا يحصُل فيه اشتهارُ ذلك؛ لأنَّ صَلْبَه رَدعٌ لغيره. (أضواء البيان للشنقيطي: 1/396).
٣. شیخ ابن عثیمین لکھتے ہیں کہ اقوال تو تین طرح کے ہیں لیکن معروف یہی ہے کہ پہلے قتل کیا جائے پھر پھانسی پر لٹکایا جائے
□ وقال ابنُ عُثَيمين: قولُه: أَوْ يُصَلَّبُوا يعني: يُصلَّبون، وهل المراد الصَّلب بعد القتْل؛ فيكون الجمع بين الأمرين؟ أو هو صلبٌ فقط دون قتْل؟ ظاهرُ الآيات الكريمة ھو أن يُصلَب حتى يفتضح بجنايتِه، ثم بعدَ ذلك يَنظر وليُّ الأمر فيه بما يراه مناسبًا، لكن المعروف أنَّ الصلب يكون بعدَ القتل.
٤. ابوعبید کہتے ہیں کہ پہلے قتل کیا جائے پھر سولی پر لٹکایا جائے
□ وعن أبي عبيد أنه يُقتل، ثم يُصلب.
٥. امام طحاوی فرماتے ہیں کہ زندہ سولی پر لٹکانا مُثلے کے زمرے میں آتا ہے، لہذا پہلے قتل کرکے پھر پھانسی دی جائے
□ وكذا ذكر الطحاوي رحمه الله أن الصلب حيا من باب المُثلة، قد نهى النبي عليه الصلاة والسلام عن المُثلة.
٦. امام شافعی، امام احمد اور بعض احناف کا قول یہی ہے کہ قتل کے بعد سولی پر لٹکایا جائے
□ أنه يُقتَل ثم يُصلب، ولا يُصلب حيا؛ لأنه من التعذيب غير المشروع. وهو مذهب الشافعية والحنابلة، وقال به بعض الحنفية والمالكية.
٧. شیخ رملی شافعی کہتے ہیں کہ پھانسی کو قتل پر مقدم نہیں کیا جائےگا
□ قال الرملي الشافعي رحمه الله: لا يُقدَّم الصلب على القتل، لكونه زيادة تعذيب. (نهاية المحتاج:8/6).
□ وقال ابن قدامة الحنبلي رحمه الله: ووقته (أي الصلب) بعد القتل. وبهذا قال الشافعي.
٢. دوسری رائے
١. پہلے سولی پر لٹکایا جائے اور پھر وہیں نیزے مار کر قتل کیا جائے، یہ قول امام ابوحنیفہ، مالک رحمه اللہ وغیرہ کا ہے
□ وقال الأوزاعي، ومالك، والليث، وأبوحنيفة، وأبويوسف: يُصلب حيا، ثم يقتل مصلوبا، يطعن بالحربة؛ لأن الصلب عقوبة، وإنما يعاقب الحي لا الميت؛ ولأنه جزاء على المحاربة.
*٢. امام سرخسی لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمه اللہ کا مذہب یہ ہے کہ حاکمِ وقت کو اختیار ہے، وہ جس چیز میں مصلحت سمجھے وہی کرے، چاہے پہلے قتل کرے پھر سولی پر لٹکائے چاہے پہلے سولی پر لٹکا کر پھر قتل کرے.*
□ وقد ذكر السرخسي الحنفي في المبسوط (9/135، 136): أن ظاهر مذهب أبي حنيفة أن الإمام يتخير بين أن يصلبه حيا، وبين أن يقتله ثم يصلبه، لأنه ليس عليه مراعاة الترتيب في أجزاء حد واحد.
٣. شیخ ابن عثیمین لکھتے ہیں کہ مصلحت کو دیکھا جائےگا، اگر قاضی(جج) کو لگتا ہے کہ پہلے پھانسی دینی چاہیئے تو دے سکتا ہے
□ وقال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله: ينبغي أن ينظر في هذا إلى المصلحة، فإذا رأى القاضي أن المصلحة أن يصلب قبل أن يقتل فعل. (الشرح الممتع على زاد المستقنع:14/371).
کتنی دیر سولی پر لٹکایا جائےگا
١. اس میں کوئی خاص وقت مقرر نہیں، بس جب پھانسی مکمل ہوجائے تو اتار دیا جائے
□ قال أبوبكر: لم يوقِّتْ أحمد في الصلب، فأقول: يصلب قدر ما يقع عليه الاسم.
٢. اصل مقصود تو اس سزا کو مشہور کرنا ہے، بس جتنی دیر میں شہرت مل جائے اتنی دیر سولی پر لٹکایا جائے
□ والصحيح توقيته بما ذكر الخرقي من الشهرة؛ لأن المقصود يحصل به.
٣. امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کا ایک قول یہ ہے کہ تین دن لٹکایا جائےگا
□ وقال الشافعي: يصلب ثلاثا. وهو مذهب أبي حنيفة.
غزوہ خندق کا واقعہ
اس واقعے کا اس موقعے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا، کیونکہ عرب میں یہ دستور تھا کہ جنگ کی لاشوں کو فروخت کیا جاتا تھا لیکن آپ علیہ السلام نے جنگی لاش کو فروخت کرنے کے بجائے ان کے لواحقین کے حوالے کردیں.
یہاں کلام جنگی لاشوں کا نہیں بلکہ کسی مجرم کی لاش کو نمونہ اور عبرت کے طور پر لٹکانے کا ہے.
خلاصہ کلام
قاضی یا حاکم اگر کسی مصلحت کی بنا پر کسی فسادی مجرم کو بطور سزا مرنے کے بعد سولی پر لٹکانے کا حکم صادر کرے تو اس حکم پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے اور اس کے نظائر ہمیں شریعت مطہرہ میں ملتے ہیں کہ فقہائےکرام نے دفعِ فساد کیلئے اس کی اجازت دی ہے، لہذا اس عمل کو سراسر غیرشرعی اور انسانیت کے خلاف قرار دینا یا میت پر حد جاری نہ کئے جانے کی بات کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢١ دسمبر ٢٠١٩ کراچی