سورج گرہن، عذاب الہی اور توہمات
سوال
بہت سارے لوگوں سے یہ بات سنی ہے کہ سورج گرہن ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہوتا ہے، لہذا ہمیں توبہ کرنی چاہیئے گویا یہ عذاب خداوندی ہوتا ہے، اسی لئے حاملہ عورتوں اور بچوں کو گرہن کے وقت گھر سے نکلنے سے روکا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ…
کیا ان سب باتوں کی کوئی حقیقت ہے؟
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ اللہ رب العزت کے ہر معاملے میں کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے اور اس حکمت کے بارے میں قرآن و حدیث میں کچھ نہ کچھ وضاحت ضرور موجود ہوتی ہے.
سورج گرہن میں حکمت خداوندی
آپ علیہ السلام نے سورج گرہن کے بارے میں فرمایا کہ یہ اللہ رب العزت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جس سے بندوں کو ڈرانا مقصود ہوتا ہے.
*١. حضرت ابوبردہ، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ جب سورج گرہن ہوا تو نبی ﷺ اس طرح گھبرائے ہوئے کھڑے ہوئے جیسے قیامت آگئی، آپ ﷺ مسجد میں تشریف لائے اور طویل ترین قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی کہ اس سے پہلے آپ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جو اللہ بزرگ و برتر بھیجتا ہے، یہ کسی کی موت اور حیات کے سبب سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، جب تم اس کو دیکھو تو ذکرِ الٰہی اور دعا واستغفار کی طرف دوڑو“.*
□ حدثنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا أبو أسامة، عن بريد بن عبدالله، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال: خسفت الشمس، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فزعاً، يخشى أن تكون الساعة، فأتى المسجد، فصلى بأطول قيام وركوع وسجود ما رأيته قط يفعله، وقال: «هذه الآيات التي يرسل الله، لا تكون لموت أحد ولا لحياته، ولكن يخوف الله به عباده، فإذا رأيتم شيئاً من ذلك، فافزعوا إلى ذكره ودعائه واستغفاره»”. (صحيح البخاري:2/39)
٢. حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجاؤ کیونکہ جب ڈرانے والی چیزیں آجائیں تو پھر دعا اور استغفار سے گناہ معاف ہوتے ہیں کیونکہ گناہ ہی مصیبتوں کے آنے کا سبب بنتے ہیں
□ قال الحافظ ابن حجر رحمه الله: قَوْله: (فَأَفْزَعُوا): أَيْ اِلْتَجِئُوا وَتَوَجَّهُوا، وَفِيهِ إِشَارَة إِلَى الْمُبَادَرَة إِلَى الْمَأْمُور بِهِ، وَأَنَّ الِالْتِجَاء إِلَى الله عِنْد الْمَخَاوِف بِالدُّعَاءِ وَالِاسْتِغْفَار سَبَب لِمَحْوِ مَا فرطَ مِنْ الْعِصْيَان؛ يُرْجَى بِهِ زَوَال الْمَخَاوِف، وَأَنَّ الذُّنُوب سَبَب لِلْبَلَايَا وَالْعُقُوبَات الْعَاجِلَة وَالْآجِلَة. (فتح الباري:2/534) .
٣. ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ اس میں استغفار کرنے کو پسند کیا گیا ہے کیونکہ وہ بلاؤں کو دفع کرتا ہے
□ وقال أيضاً: فِيهِ النَّدْب إِلَى الِاسْتِغْفَار عِنْد الْكُسُوف وَغَيْره لِأَنَّهُ مِمَّا يُدْفَع بِهِ الْبَلَاء. (فتح الباري:2/546) .
٤. شیخ ابن باز لکھتے ہیں کہ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ گرہن کا لگنا اللہ تعالی کی ذات سے بندوں کو ڈرانا ہے تاکہ وہ اللہ تبارک و تعالی کی طرف متوجہ ہوجائیں
□ وقال الشيخ عبدالعزيز بن باز رحمه الله: ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه أخبر أن الكسوف والخسوف للشمس والقمر يقعان تخويفاً من الله لعباده، وحثاً لهم على مراعاة هذه الآيات، والخوف من الله عزوجل والفزع إلى ذكره وطاعته. (مجموع فتاوى ابن باز:30/289-290)
٥. شیخ ابن عثیمین لکھتے ہیں کہ گرہن کا لگنا عذاب نہیں بلکہ اللہ تعالی کی طرف ڈرانے کا ایک ذریعہ ہے، اسی لئے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کے ذریعے بندوں کو ڈرایا جاتا ہے نہ کہ عذاب دیا جاتا ہے، پھر اس کے بعد کیا ہوگا اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے
□ وقال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله: الكسوف إنذار من الله لعقوبة انعقدت أسبابها، وليس هو عذاباً، لكنه إنذار، كما قال صلى الله عليه وسلم: “يخوف الله بهما عباده”، ولم يقل: يعاقب الله بهما عباده، بل هو تخويف، ولا ندري ما وراء هذا التخويف.
گرہن کے موقعے پر صحابہ کرام کا عمل
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سورج گرہن ہوا تو انہوں نے نماز پڑھائی، اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ کے حجرے کے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آپ علیہ السلام گرہن کے موقعے پر اس بات کا حکم دیتے تھے کہ نماز پڑھا کرو اس لئے کہ اگر یہ قیامت کی گھڑی ہوگی تو تم غفلت میں نہیں رہوگے اور اگر قیامت کی گھڑی نہ ہوئی تو تم لوگ خیر اور بھلائی کو حاصل کرنے والے ہوگے
□ وقد حدث الكسوف في عهد عثمان، فصلى بالناس ثم انصرف فدخل داره. وجلس عبدالله بن مسعود إلى حجرة عائشة، وجلس إليه بعض الصحابة فقال: إن الرسول صلى الله عليه وسلم كان يأمر بالصلاة عند كسوف الشمس والقمر. فإذا رأيتموه قد أصابهما، فافزعوا إلى الصلاة فإنها إن كانت التي تحذرون (يعني الساعة) كانت وأنتم على غير غفلة، وإن لم تكن، كنتم قد أصبتم خيرًا واكتسبتموه. (رواه أحمد وأبويعلي والطبراني ورجاله موثوقون، كما في مجمع الزوائد (ج:2، 206،207)
– وقال الشيخ أحمد شاكر في تخريج المسند (ج:6، رقم:4387): إسناده صحيح.
غیرمعمولی حالات میں آپ علیہ السلام کا عمل
حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ جب آسمان میں کوئی بادل کا ٹکڑا نظر آتا تو آپ علیہ السلام بےچین ہوجاتے کبھی اندر آتے کبھی باہر جاتے یہانتک کہ بارش ہوجاتی تو آپ علیہ السلام مطمئن ہوجاتے، حضرت عائشہ نے اسکی وجہ پوچھی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا خبر اس میں سابقہ امتوں کی طرح عذاب نہ ہو
□ روى البخاري في صحيحه عن عائشة رضي الله عنها قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا رأى مخيلة في السماء أقبل وأدبر ودخل وخرج وتغير وجهه، فإذا أمطرت السماء سري عنه، فعرفته عائشة ذلك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ما أدري لعله كما قال قوم: {فلما رأوه عارضا مستقبل أوديتهم….} [الأحقاف:24]. روى مسلم: “إذا كان يوم الريح والغيم عرف ذلك في وجهه وأقبل وأدبر”.
سورج گرہن اور عوامی توہمات
اس موقعے پر جس قدر باتیں عوام میں قدیم اور جدید سے موجود ہیں وہ سب ہی بےسر و پا اور بےبنیاد ہیں
١. اس کو کسی کی موت کا سوگ قرار دینا
اہلِ جاہلیت اس کو کسی بڑے کے مرنے کا سوگ قرار دیتے تھے، آپ علیہ السلام نے اس کی نفی فرمائی.
٢. حاملہ خواتین کیلئے اس کو مضر قرار دینا
اس طرح کی مشہور کوئی بات بھی درست نہیں.
سورج گرہن کا رحمِ مادر میں موجود جنین پر اثر انداز ہونا محض عوامی اور دنیاوی بات ہے، یہ اسلامی تصور نہیں ہے. حدیث میں صرف اتنا آیا ہے کہ ”سورج گرہن یا چاند گرہن کسی کے موت و حیات کی وجہ سے وقوع پذیر نہیں ہوتے بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، جب تم سورج یا چاند گرہن دیکھو تو نماز پڑھو.“ بعض روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتے ہیں۔ اس لئے سورج یا چاند گرہن کے موقعے پر نماز پڑھنی چاہیئے، عذاب قبر سے پناہ مانگنی چاہیئے اور گناہوں سے توبہ استغفار کرنا چاہیئے.
(واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
٣. سورج گرہن کو دیکھنے سے آنکھوں کا خراب ہونا
یہ بھی عوام میں مشہور ایک بات ہے جس کا تعلق تجربے سے ہے، نہ کہ شرعی حکم سے.
٤. معذور بچوں کو ریت میں دفن کرنا
سورج گرہن کے ساتھ بہت سی توہمات اور پیش گوئیاں جڑی ہوتی ہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں اور ناخواندہ طبقے میں عام طور پر یہ تأثر پایا جاتا ہے کہ جب بھی سورج گرہن ہو تو لوگ اس موقع پر دریائے سندھ کے کنارے اپنے بچوں کو دھڑ تک ریت میں دبا دیں، ایسا کرنے سے جسمانی معذوری دور ہوجاتی ہے.
٥. اس موقعے کو تفریح بنانا
لوگ اس موقعے پر کھلی جگہوں پر جاتے ہیں اور مختلف چشمے پہن کر اس کو بطور تفریح دیکھتے ہیں، ایسا کرنے سے علمائےکرام منع فرماتے ہیں.
اسی طرح شیخ ابن عثیمین اور شیخ صالح الفوزان وغیرہ فرماتے ہیں کہ اس کے واقع ہونے کی اطلاع پہلے سے کر دینے سے بھی اچانک خوفزدہ ہو کر اللہ تعالی کی جانب رجوع کرنے کی حکمت فوت ہوجاتی ہے، اور لوگ اسے بھی ایک عام بات بلکہ تفریح کے طور پر لینے لگتے ہيں.* (الشرح الممتع، ج:5، مجموع فتاوی شیخ ابن عثیمین، ج:16، ص:298-303)
خلاصہ کلام
سورج گرہن یا چاند گرہن اللہ تبارک و تعالی کی عظیم قدرت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جس سے بندوں کو ڈرانا اور متوجہ کرنا مقصود ہوتا ہے، لہذا بندے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوں، نماز پڑھیں، ذکر و استغفار کی کثرت کریں.
اس کے علاوہ اس موقعے پر مشہور تمام باتیں بےاصل اور من گھڑت باتیں جن پر کان نہ دھرے جائیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٥ دسمبر ٢٠١٩ کراچی