قرآن کریم کی طرف پشت کرنا
سوال
حضرت محترم مفتی صاحب!
اگر کوئی شخص قرآن مجید کی طرف پیٹھ کرے تو کچھ لوگ اس پر بہت زیادہ تنبیہ کرتے ہیں۔ برائے مہربانی اس مسئلے میں رہنمائی فرما دیں کہ کس حد تک گنجائش ہے؟
(سائل: محمد شہزاد ارشد عفی عنہ، ملتان، پنجاب پاکستان)
الجواب باسمه تعالی
فقہائےکرام نے قرآن مجید کے آداب میں اس بات کو واضح کرکے فرمایا ہے کہ قرآن مجید کی بےحرمتی اور بےادبی نہ کی جائے.. اب ہر معاشرے میں بےادبی کے اپنے ضابطے ہوتے ہیں، جو عمل عرفا بےادبی شمار کیا جائےگا اس سے اجتناب کرنے کی کوشش کی جائےگی اور جو عرفا بےادبی نہیں ہوگا اس کو زبردستی بےادبی نہیں بنایا جائےگا.
قرآن کریم کی طرف پشت کرنے کے متعلق مشہور دارالافتاؤوں کے فتاوی بھی اس بات کی طرف اشارے کرتے ہیں کہ مطلقا قرآن مجید کی طرف پیٹھ کرنا ناجائز یا بےادبی نہیں بلکہ کسی خاص نوعیت اور حالت میں اس کو بےادبی شمار کیا جاسکتا ہے.
● دارالافتاء دارالعلوم دیوبند میں ہے:
قرآن کی طرف پیٹھ کا ہونا مطلقا مکروہ نہیں ہے؛ بلکہ اس طرح پیٹھ کرنا کہ جس میں عرفا بےادبی سمجھی جاتی ہو؛ مکروہ ہے؛ جیسے بہت قریب بیٹھنے والے کے پیچھے قرآن ہاتھ میں لے کر پڑھنے میں بےادبی معلوم ہوتی ہے، لیکن زیادہ فاصلہ ہو یا بڑی مسجد میں مجمع کثیر ہو، تو آگے بیٹھنے والے کے پشت کی طرف رخ کرکے بھی قرآن پڑھنا جائز ہے، منع نہیں ہے، اسی طرح اگر سنت یا نفل پڑھنے والے کے پیچھے فاصلے پر ٹیبل وغیرہ پر قرآن رکھا ہوا ہو، تو عرفا یہ بھی بےادبی نہیں سمجھی جاتی، بالخصوص جبکہ قرآن مجید بند ہو، تاہم قرآن کریم کے تقدس کا تقاضہ یہ ہے کہ اُس کو ایسی جگہ رکھا جائے جہاں بےادبی کا شائبہ بھی نہ ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
● دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی:
واضح رہے کہ قرآن مجید کا احترام واجب ہے اور اس کی بےاحترامی گناہ ہے، احترام اور بےاحترامی کا تعلق دو باتوں سے ہے، دل کی نیت و ارادہ سے اور عرف و رواج سے، لہذا جس کام کو عرف و رواج میں بےاحترامی سمجھا جاتا ہو اس سے احتراز کرناچاہیئے، اور جس کام کو بےاحترامی نہیں سمجھا جاتا اس کا کرنا جائز ہے، نیز یہ ایک حقیقت ہے کہ مشرقی علاقوں میں کسی چیز کو پشت کے پیچھے رکھنا یا اس کی طرف پشت کرنا بےاحترامی اور بےادبی تصور کیا جاتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں قرآن مجید کی طرف پشت کرنا بےادبی اور بےاحترامی ہے، اس لئے قصداً قرآن مجید کی طرف پشت کرکے بیٹھنے سے احتراز کرنا چاہیئے۔
اگر پشت کے پیچھے اس کی سیدھ میں قریب ہی قرآن مجید ہو تو اسے عرف میں پشت کرنا شمار کیا جاتا ہے۔
ضرورت کے مواقع پر یا غیرارادی طور پر اگر ایسی نوبت آجائے اور دل میں بےاحترامی کا تصور بھی نہ ہو تو یہ بےاحترامی میں داخل نہیں ہوگا، مثلاً: مسجد کی صفیں نمازیوں سے پُر ہوں اور کوئی نمازی قرآن پاک ہاتھ میں لئے تلاوت کررہا ہو تو اگلی صف میں بیٹھے شخص (جس کے وہم وگمان میں بھی بےادبی نہ ہو اس) کو بےاحترامی کا مرتکب نہیں کہا جائےگا۔ البتہ ایسے مواقع پر قرآن مجید ہاتھ میں لے کر تلاوت کرنے والے شخص کو چاہیئے کہ وہ ذرا دائیں بائیں ہو کر قرآن مجید ہاتھ میں تھامے، تاکہ اگلے شخص کی پیٹھ کی سیدھ میں نہ ہو۔ فقط واللہ اعلم..
(جامعہ علوم اسلامیہ، علامہ بنوری ٹاؤن کراچی).
□ تلاوت کرنے والے سے اونچا بیٹھنا:
اس کا تعلق بھی عرف اور رواج سے ہے کہ عموما اونچی جگہ بیٹھے ہوئے شخص کو قرآن مجید کے ادب کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے لیکن قرآن مجید کے ہوتے ہوئے اونچی جگہ یا کرسی وغیرہ پر بیٹھنا حرام یا ناجائز نہیں، البتہ مناسب اور ادب کے خلاف تصور کیا جاتا ہے، لہذا اگر گنجائش ہو تو ادب کا لحاظ ضرور رکھا جائے لیکن سببِ حرج نہیں بننا چاہیئے.
● دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی:
اگر ایک شخص پہلے سے زمین پر بیٹھ کر تلاوت کر رہا ہو تو دوسرے شخص کو تلاوت کرنے کے لئے بلاعذر بالکل اس کے برابر میں آکر کرسی پر نہیں بیٹھنا چاہیئے، بلکہ اسے چاہیئے کہ اگر کوئی ایسا عذر نہ ہو (جس کی وجہ سے زمین پر بیٹھنے کی قدرت نہ ہو) تو وہ بھی زمین پر ہی بیٹھ کر تلاوت کرلے۔ اور اگر کوئی عذر ہو تو تھوڑا سا فاصلہ پر بیٹھے، کیونکہ بالکل ساتھ ساتھ بیٹھنے کی صورت میں زمین پر بیٹھ کر قرآن پڑھنے والے کا قرآن پاک کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص کے پیروں کے برابر میں واقع ہوجانے کی وجہ سے اس میں بےادبی کا پہلو نمایاں ہے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص پہلے سے کرسی پر بیٹھ کر تلاوت کر رہا ہو تو دوسرے شخص کو اس کے بالکل برابر میں آکر زمین پر بیٹھ کر تلاوت نہیں کرنی چاہیئے، بلکہ کچھ فاصلہ سے بیٹھنا چاہیئے، لیکن اگر کوئی کرسی پر بیٹھ کر تلاوت کر رہا ہو اور دوسرا شخص نادانی میں آکر اس کے برابر میں بیٹھ کر تلاوت کرنے لگے تو اگر کرسی والے شخص کو کوئی عذر مانع نہ ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ بھی قرآن کریم کے ادب میں نیچے اتر آئے۔
یہ ساری تفصیل اس صورت میں ہے جبکہ زمین پر بیٹھ کر قرآن پڑھنے والا شخص قرآن کا نسخہ ہاتھ میں لے کر تلاوت کر رہا ہو، لیکن اگر زمین پر بیٹھ کر تلاوت کرنے والا شخص مصحف کو اٹھائے بغیر زبانی ہی تلاوت کر رہا ہو اور دوسرا شخص کرسی پر بیٹھ کر تلاوت کر رہا ہو تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم
(فتوی نمبر: 144012201099
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ، علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن).
خلاصہ کلام
بحیثیت مسلمان ہر شخص کو قرآن مجید کے آداب کا خیال رکھنا چاہیئے لیکن آداب کے معاملے میں اس قدر سختی کرنا ہرگز مناسب نہیں کہ جسکی وجہ سے تلاوت کرنے والا تلاوت ہی کو ترک کرنے پر مجبور ہوجائے.
بعض جگہوں پر دیکھا گیا کہ دوسری صف میں تلاوت سے منع کیا جاتا ہے کہ پیٹھ ہورہی ہے، یا پہلی صف والے کو منہ پھیر کر دوسری صف والے کے بلکل سامنے بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے، امام مسجد کو منبر پر بیٹھنے سے روکا جاتا ہے تاوقتیکہ سب تلاوت کرنے والے قرآن مجید بند کرکے نہ رکھ دیں، کرسی پر بیٹھنے والے کو ٹوکا جاتا ہے کہ تلاوت ہورہی ہے وغیرہ..
جہاں پر وسعت ہو اور جگہ میں گنجائش ہو وہاں آداب کی رعایت ضرور کی جائے ورنہ تلاوت کو ادب پر مقدم کیا جائےگا.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١١ جنوری ٢٠٢٠ کراچی