تنبیہ نمبر 259

ایک نائی اور امام صاحب

سوال
گذشتہ روز ایک سوال آیا جس میں امام ابوحنیفہ رحمه اللہ سے مناسکِ حج میں ہونے والی غلطیوں سے متعلق ایک واقعہ مذکور ہے جسکی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
حضرت امام ابوحنیفہ رحمه اللہ جب حج سے لوٹے اور ملاقاتیوں نے حج کے احوال دریافت کئے تو انہوں نے فرمایا:
مجھ سے مناسک میں پانچ غلطیاں ہوئیں اور وہ پانچوں ایک نائی نے درست کروائیں.
لوگ چونکے اور اسکی تفصیل پوچھی تو فرمایا کہ جب میں سر منڈوانے کے لئے نائی کے پاس گیا اور اس سے پوچھا:
١. سر مونڈنے کے کتنے پیسے لوگے؟
اس نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا: اللہ تمہیں ہدایت دے.. مناسک میں بھاؤ تاؤ ناجائز ہے، بیٹھو جو جی کرے دے دینا. میں شرمندہ ہو کر بیٹھ گیا تو اس نے پھر ٹوکا:
٢. یہ کیسے بیٹھے ہو؟ اپنا رُخ قبلے کی جانب کرو.
میں مزید شرمندہ ہوا اور رُخ قبلے کی طرف کرکے سر اس کے آگے کیا تو بائیں جانب آگے کردی. اس نے پھر ٹوکا اور کہا:
٣. بائیں نہیں، دائیں جانب آگے کرو.
میں نے دائیں جانب آگے کردی، اس نے کام شروع کردیا اور میں چپ چاپ بیٹھا رہا. یہ دیکھ کر اس نے پھر ٹوکا:
٤. چپ کیوں بیٹھے ہو، تکبیرات پڑھو.
جب وہ فارغ ہوگیا تو میں پیسے دے کر روانہ ہوگیا. مجھے جاتا دیکھ کر اس نے پوچھا:
٥. کدھر جا رہے ہو؟
میں نے بتایا: اپنے خیمے میں… تو اس نے کہا: خیمے میں بعد میں جانا، پہلے جاکر دو نفل پڑھو.
امام صاحب نے زچ ہو کر پوچھا: آپ یہ سب کیسے جانتے ہیں؟ نائی نے کہا کہ میں یہاں حرم میں حضرت عطاء ابن ابی رباح رحمه اللہ کے درس کا مستقل شریک رہا ہوں.
حضرت عطاء ابن ابی رباح تابعین میں سے سب سے بڑے ہیں. آپ حرم مکی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے جانشین بنے تھے اور غالبا 18 سال حرم میں مفتی کے منصب پر فائز رہے.
○ اس واقعے کے متعلق میرا جواب یہ تھا:
جی یہ واقعہ مختلف کتب میں منقول ہے، لہذا اس کو ثابت ہی کہا جائےگا۔
□ مفتی سرفراز صاحب میلسی والوں کا اس پر رد عمل:
کسی واقعہ کا مختلف کتب میں لکھا ہوا ہونا اسکے صحیح ہونے کو مستلزم نہیں، ورنہ تو بہت سی موضوع احادیث بھی مختلف کتب میں لکھی ہوئی ہوتی ہیں۔
ایک عظیم الشان مجتہد، فقیه جو کہ کئی مجتہدین محدثین کے استاذ ہیں، انکی شان سے یہ واقعہ بہت بعید ہے۔
ایک شخص جس نے پچپن حج کئے ہوں، اسکے زمانے کے اور بعد کے اہل علم، علم فقہ میں جسکے عیال ہوں اسکے بارے میں اس طرح کے واقعے کی تصدیق کرنے سے پہلے سوچنا چاہیئے۔
بندہ کے خیال میں اس طرح کے واقعات وہی حاسدین گھڑتے ہیں جو امام صاحب پر صرف سترہ احادیث کی روایت کی بات کرتے ہیں…
اس واقعے کے بارے میں آپکی رائے اور تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی

یہ واقعہ مختلف کتب میں منقول ہے، بعض کتب میں پانچ مسائل کا تذکرہ ہے.

علامہ ابن جوزی نے “مثیر العزم الساکن الی اشرف الاماکن” میں نقل کیا ہے.

□ فقد قال ابن الجوزي في مثير العزم الساكن إلى أشرف الأماكن: أخبرنا أبو المعمر الأنصاري، أنبأنا جعفر بن أحمد، أنبأنا أبومحمد الخلال، أنبأنا أحمد بن محمد بن القاسم الرازي، حدثنا أحمد بن محمد الجوهري، أنبأنا إبراهيم بن سهل المدائني، حدثني سيف بن جابر القاضي، عن وكيع، قال: قال لي أبوحنيفة النعمان بن ثابت رضي الله عنه: أخطأت في خمسة أبواب من المناسك، فعلمنيها حجام، وذلك أني حين أردت أن أحلق رأسي وقف علي حجام، فقلت له: بكم تحلق رأسي؟ فقال: أعراقي؟ قلت: نعم. قال: النسك لا يشارط عليه، اجلس. فجلست منحرفا عن القبلة، فقال لي: حوّل وجهك إلى القبلة. فحولته، وأردت أن أحلق من الجانب الأيسر، فقال: أدر الشق الأيمن من رأسك، فأدرته، وجعل يحلق وأنا ساكت، فقال: كبر. فجعلت أكبر حتى قمت لأذهب، فقال: إلى أين تريد؟ قلت: رحلي. قال: صل ركعتين، ثم امض. فقلت: ما ينبغي أن يكون ما رأيت من عقل هذا الحجام. فقلت: من أين لك ما أمرتني به؟ فقال: رأيت عطاء بن أبي رباح يفعل هذا.

اس قصے کو حطاب المالکی نے ابن خطاب کی طرف منسوب کرکے لکھا ہے.

□ وقد عزا القصة الحطاب الرعینی المالکی في شرح المختصر الی ابن جماعة.

ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہ قصہ مشہور ہے اور ابن جوزی نے اپنی سند سے اس کو نقل کیا ہے جو سند وکیع تک پہنچتی ہے.

□ وقال الحافظ ابن حجر في التلخيص الحبير، تعليقا عليها: وَهِيَ مَشْهُورَةٌ، أَخْرَجَهَا ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي مُثِيرِ الْعَزْمِ السَّاكِنِ بِإِسْنَادِهِ إلَى وَكِيعٍ عَنْهُ.

علامہ انور شاہ کشمیری نے اس واقعے کو العرف الشذی میں نقل کیا ہے کہ امام صاحب نے تین مسئلے سیکھے.

□ ذكر صاحب العرف الشذي هاهنا قصة الإمام أبي حنيفة والحجام المشهورة فقال: إن أباحنيفة لما ذهب حاجا ففرغ عن حجته وأراد الحلق فاستدبر القبلة، قال الحالق: استقبلها، ثم بدأ أبوحنيفة باليسار، قال الحالق ابدأ باليمين، ثم بعد الحلق أخذ أبوحنيفة أن يقوم وما دفن الأشعار، قال الحالق: ادفنها، فقال أبوحنيفة: أخذت ثلاثة مسائل من الحالق.

اس واقعے کو نقل کرنے کے بعد علامہ کشمیری رحمه اللہ لکھتے ہیں کہ اس واقعے کے ثبوت کا کوئی (قطعی) علم نہیں.

¤ ثم قال: هذه الحكاية ثبوتها لا يعلم.

شیخ مبارکفوری نے تحفة الأحوذی (ج:4، کتاب الحج) میں اس قصے کو نقل کرنے کے بعد ابن حجر رحمه اللہ کے حوالے سے ان تین اعمال کی دلیل نقل کی ہے کہ کن روایات سے منقول ہیں.

خلاصہ کلام

اسلافِ امت کے قصوں کا مستند اکابر کی کتب میں بغیر رد کے منقول ہونا کافی ہوتا ہے جبکہ اکابر احناف میں سے کسی نے اس واقعے پر رد بھی نہیں کیا.

قابل مفتی صاحب کا یہ کہنا کہ امام صاحب نے غالبا 52 حج کئے تو ہوسکتا ہے کہ یہ پہلا حج ہو، بہرحال ایسے واقعات جن کو رد کرنے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہو ان کو رد نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ 55 حج والا واقعہ بھی کسی مستند طریقے سے ثابت نہیں، البتہ مشہور ہے لہذا مان لیا جاتا ہے.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٧ جنوری ٢٠٢٠ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں